اسلاموفوبيا کا خاتمہ وقت کی ضرورت، مسلم علماء
19 مارچ 2019
مسلم علماء، اسکالرز اور رہنماؤں کی جانب سے تحرير کردہ اس اپيل ميں ’منظم اور اداروں تک کی سطح پر پائے جانے والے اسلاموفوبيا‘ کے انسداد کے ليے کارروائی کا مطالبہ کيا گيا ہے۔ يہ مسودہ برطانوی اخبار ’دا گارڈيئن‘ ميں آج منگل 19 مارچ کو چھپا۔ اس میں تحريرہے کہ نیوزی لینڈ میں ’’قتل عام اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے ہوا۔‘‘
واضح رہے کہ نيوزی لينڈ کے شہر کرائسٹ چرچ ميں جمعہ پندرہ مارچ کو دائيں بازو کے دہشت گرد نے دو مساجد پر حملے کرتے ہوئے پچاس افراد کو ہلاک کر ديا۔ يہ نيوزی لينڈ ميں رونما ہونے والا دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس تناظر ميں دنيا بھر ميں مسلم ممالک اسلاموفوبيا کے انسداد کے ليے مطالبات کر رہے ہيں۔
منگل کو سامنے آنے والی اس اپيل پر جرمنی، برطانيہ، امريکا، آسٹريليا، نيوزی لينڈ، جنوبی افريقہ، عراق اور اردن سے تعلق رکھنے والے تقريباً ساڑھے تين سو سے زائد مسلم رہنماؤں، علماء، اسکالرز اور ديگر سرکردہ شخصيات نے دستخط کيے۔ ان لوگوں نے موقف اختيار کيا ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت آميزی بڑھانے ميں چند ’بے پرواہ سياستدان، تعليم کے شعبے سے وابستہ افراد اور ذرائع ابلاغ کے کچھ ادارے بھی ملوث ہيں: ’’مسلمانوں کا يہ قتل عام حملہ آور کی بندوق سے نکلی گوليوں سے شروع نہيں ہوا بلکہ يہ کئی دہائيوں کی کارروائيوں کا نتيجہ ہے، جس کی وجہ اسلام سے خوف پر مبنی ميڈيا رپورٹس، مسلمانوں سے نفرت کرنے والے سياستدان اور سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر پايا جانے والا بے لگام تعصب ہے۔‘‘
مسلم علماء، اسکالرز اور رہنماؤں نے تنبيہ کی ہے کہ نسل پرستی اور اجنبيوں سے خوف ميں اضافے کے نتائج بھيانک ہوتے ہيں، جو تہذيب یافتہ معاشروں کے ليے ايک جيلنج ثابت ہو سکتے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ بے مقصد اور سمجھ سے بالاتر تشدد کے اس چکر کو ختم ہونا چاہيے۔ مغربی رياستوں کی حکومتوں اور ميڈيا پر زور ديا گيا ہے کہ انتہائی دائيں بازو کے گروپس ايک حقيقی خطرہ ہيں اور اس ضمن ميں عوام کو آگاہ کیا جانا اور حفاظتی اقدامات لازمی ہیں۔
ع س / ا ب، نيوز ايجنسياں