اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو میدان چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، اشرف غنی
15 مارچ 2016طالبان کے ساتھ مذاکرات میں حالیہ ناکامیوں پر اشرف غنی نے زیادہ بات کرنے کی بجائے اپنے بیان میں توجہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور کامیابی پر مرکوز کی۔
آج منگل 15 مارچ کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ سے ملاقات کے بعد دارالحکومت کابل میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں افغان صدر نے کہا کہ ملکی سرزمین کا کوئی حصہ اسلامک اسٹیٹ کو استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔
اسٹولٹن برگ کا بھی اس موقع پر کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ پوری کوشش کے باوجود عراق اور شام کی طرح افغانستان میں ویسی کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ جنگجو اپنی جان بچانے کے لیے یہاں وہاں بھاگ رہے ہیں۔
اشرف غنی نے بھی کہا کہ اسلامک اسٹیٹ سے نمٹنے کے لیے امریکی اتحادی فوج سے فضائی مدد حاصل کی جاتی رہے گی، جب کہ افغانستان کی زمینی فوج ان عسکریت پسندوں کے خلاف حملے جاری رکھے گی۔
اسٹولٹن برگ نے اس موقع پر واضح کیا کہ اتحادی فوج افغانستان میں لڑاکا فوجی بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ واضح رہے کہ سن 2014ء کے اختتام پر نیٹو نے افغانستان میں اپنے جنگی فوجی مشن کا اختتام کر دیا تھا۔
افغانستان میں اب بھی کئی ہزار اتحادی فوجی موجود ہیں، تاہم ان کا کام تربیت اور معاونت تک محدود ہے، اس کے علاوہ وہ صرف ذاتی دفاع کے لیے کوئی عسکری کارروائی کرنے کے مجاز ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکا کی انسداد دہشت گردی کی فورس تاہم افغانستان میں فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے، جب کہ مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف اب بھی کبھی کبھی امریکی اسپیشل سروسز کے کمانڈو چھاپے مارتے ہیں۔
رواں برس جولائی میں نیٹو حکام کا اجلاس پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں منعقد ہو رہا ہے، جس میں افغانستان میں سن 2018ء تا 2020ء کے درمیان فوجی مشن جاری رکھنے کی بابت درکار سرمایے کے حوالے سے بات چیت ہو گی۔ اس کے علاوہ افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی تعداد کے علاوہ افغان فورسز کی تربیت کے حوالے سے پروگرامز کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔