1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حامیوں کے خلاف جرمنی بھر میں چھاپے

عاطف بلوچ، روئٹرز
15 نومبر 2016

پولیس نے جرمنی کی سولہ میں سے دس ریاستوں میں مختلف مقامات پر چھاپے مار کر مبینہ طور پر شدت پسندوں کے گھروں کی تلاشی لی۔ اس دوران دو سو سے زائد سلفی مسلمانوں کو ہدف بنایا گیا۔

https://p.dw.com/p/2SiDs
Salafisten in Deutschland
تصویر: picture-alliance/dpa/ W.Steinberg

جرمن میڈیا کے مطابق مبینہ شدت پسندوں کے خلاف دو سو چھاپے منگل کی صبح مارے گئے۔ خود کو ’اصل اسلام‘ قرار دینے والی سلفی مسلمانوں کی اس تنظیم کی ہمدردیاں اور مبینہ رابطے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے تھے۔

بتایا گیا ہے کہ جرمنی کی دس ریاستوں میں مارے جانے والے ان چھاپوں میں ان انتہاپسند نظریات کے حامل مسلمانوں کے مکانات اور دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ سلفی مسلمان کی یہ تنظیم خود کو ’اصل اسلام‘ قرار دیتے ہیں اور انہیں نے قرآن کی انتہاپسند تشریحات کر رکھی ہیں۔

وفاقی وزارت داخلہ نے ان چھاپوں کی تصدیق کی ہے اور اس ’اصل اسلام‘ نامی اس تنظیم پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔

Wuppertal Demonstrationen von Salafisten und Pegida
سلفی مسلمان انتہائی شدت پسندانہ نظریات کے حامل ہیںتصویر: Getty Images/S.Schuermann

بتایا گیا ہے کہ ان میں سے قریب 65 چھاپے ہیسے صوبے میں مارے گئے، جن میں سے 15 فرینکفرٹ شہر میں تھے۔ اس کے علاوہ برلن اور دیگر شہروں میں بھی کارروائیاں کی گئیں۔

سلفی مسلمانوں نے قرآن کے اپنے ترجمے کو جرمن الفاظ ’اسے پڑھو‘ سے جاری کر رکھ ہے، جس میں قرآنی آیات کو نہایت مختلف طریقے سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ سلفی مسلمانوں کی مقدس کتاب کی سخت ترین تشریحات کرتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کے لیے شریعہ قوانین کا اعلان کرتے ہیں۔

حالیہ کچھ عرصے میں سلفیوں کی ’اصل اسلام‘ نامی تنظیم کے حوالے سے کئی تنازعات سامنے آ چکے ہیں اور ان کا کیا گیا ترجمہ جسے وہ ’اسے پڑھو‘ کے نعرے کے ساتھ لوگوں تک سڑکوں پر لوگوں کے حوالے کرتے رہے ہیں، تاہم اب اس سلسلے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔

یہ نئے چھاپے ایک ایسے موقع پر مارے گئے ہیں، جب صرف ایک ہفتہ قبل جرمنی میں سلفیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تھا اور ان کے ایک 32 سالہ مبلغ ابووالا، جو نفرت انگیز تقاریر میں ملوث تھا، حراست میں لیا گیا تھا۔ والا نامی یہ 32 سالہ عراقی شہری سن 2000 سے جرمنی میں متحرک ہے اور اس پر الزام ہے کہ وہ جرمنی میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے۔