1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامی انتہا پسند سب سے بڑا خطرہ، ناروے کی خفیہ پولیس

1 مارچ 2011

ناروے کی خفیہ پولیس کے مطابق فیس بک جیسی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی اور شدت پسندانہ رنگ اختیار کرتا جا رہا اسلامی انتہا پسندی کا رجحان ابھی تک ناروے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

https://p.dw.com/p/10R0G
PST کی خاتون سربراہ جین کرسٹیانسنتصویر: AP

اوسلو میں ناروے کی خفیہ پولیس PST نے ملک کو درپیش مجموعی خطرات سے متعلق اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اسلامی شدت پسندی ناروے میں حکام کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے اور اسی لیے اس رحجان پر قابو پانا اس ادارے کی اولین ترجیح بھی ہے۔

PST کی خاتون سربراہ جین کرسٹیانسن نے اوسلو میں اپنے ادارے کی اس رپورٹ کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ناروے میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے، جو اسلامی انتہا پسندی کی حمایت کرتے ہیں تاہم چند گروپوں میں ایسی حرکات اور مصروفیات کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے، جو سال رواں کے دوران اس حوالے سے زیادہ بڑے خطرات کا سبب بن سکتی ہیں۔

Polizei Norwegen
اوسلو میں پولیس افسران گشت کرتے ہوئےتصویر: AP

ناروے میں سلامتی کے نگران اس قومی ادارے کے مطابق فیس بک اور ٹویٹر جیسی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے باعث دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح اسکینڈے نیویا کی اس ریاست میں بھی انتہا پسندانہ رحجانات نہ صرف زیادہ سے زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں بلکہ مذہب کے نام پر شدت پسندی کا پرچار کرنے والوں کے لیے اپنی سوچ اور نظریات کی ترویج کے لیے ایسی ویب سائٹس کا استعمال بھی اہم سے اہم تر ہوتا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق چونکہ کسی بھی ویب سائٹ پر کسی بھی موضوع سے متعلق بہت مختلف اور متضاد آراء کے حامل افراد بہت کم ہی کسی ایک فورم میں جمع ہوتے ہیں، اس لیے انتہا پسندوں کو اپنے نظریات کو زیادہ سے زیادہ شاندار طریقے سے پیش کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور اس عمل میں انہیں قانون کی حکمرانی کے نام پر جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔

جین کرسٹیانسن کے بقول ناروے میں چند افراد تو خاص طور پر اس لیے افغانستان، پاکستان، صومالیہ اور یمن جیسے ملکوں میں گئے کہ وہ وہاں یا تو خود مسلح مزاحمت میں حصہ لینا چاہتے تھے یا پھر عسکریت پسندی کی تربیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔

ناروے شمالی یورپ کا ایک ایسا ملک ہے جس کے افغانستان میں فرائض انجام دینے والے مسلح فوجیوں کی تعداد 500 بنتی ہے مگر جسے خوش قسمتی سے آج تک کبھی بھی اپنی سر زمین پر مسلمان انتہا پسندوں کے کسی حملے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پچھلے برس تاہم ناروے میں پولیس نے تین ایسے مشتبہ مسلمانوں کو گرفتار کر لیا تھا، جو ناروے ہی میں رہائش پذیر تھے اور جن پر الزام تھا کہ وہ مبینہ طور پر دھماکہ خیز مواد کی مدد سے شمالی یورپ کے اس ملک میں حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں شامل رہے تھے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں