اسلامی ’خیراتی ادارے‘ بند کر دیں گے، خاقان عباسی
23 جنوری 2018شاہد خان عباسی نے امریکی صدر کے اُس حالیہ ٹوئٹ کو بھی رد کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’جھوٹ اور دھوکا دہی‘‘ سے کام لیتا رہا ہے۔ انہوں نے ایسے امکانات کا بھی اظہار کیا ہے کہ امریکا نیٹو فورسز کو سامان کی ترسیل کے لیے پاکستان کی فضائی حدود کا جو استعمال کر رہا ہے، پاکستان اس کی قیمت وصول کرنا بھی شروع کر سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکا اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے جاری دباؤ کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے لیے سرمائے کے حصول کا راستہ روکنے کے لیے گزشتہ ماہ خفیہ منصوبہ تیار کیا تھا جس کا مقصد حافظ سعید احمد کے زیر انتظام چلنے والے خیراتی اداروں کو حکومتی کنٹرول میں لینا تھا۔ واشنگٹن اور نئی دہلی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ حافظ سعید 2008 میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ ان حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکا جماعت الدعوة اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو لشکر طیبہ کے ’’دہشت گردی کے محاذ‘‘ قرار دیتا ہے۔ حافظ سعید نے لشکر طیبہ کی بنیاد 1987ء میں رکھی تھی۔ حافظ سعید ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتے رہے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی طرف سے قائم کردہ خیراتی ادارے صرف فلاحی کام کرتے ہیں اور ان کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
59 سالہ شاہد خاقان عباسی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک خصوصی انٹرویو کے دوران بتایا، ’’جی، حکومت ان خیراتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لے گی جن پر پابندیاں عائد ہیں۔‘‘ اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عباسی کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں پر عملدرآمد کے لیے ہر ایک متفق ہے۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی ڈیڈ لائن دینے سے احتراز کیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک ٹیم رواں ماہ پاکستان کا دورہ کرنے والی ہے جو پاکستان کی طرف سے ’’دہشت گرد‘‘ گروپوں کے خلاف کیے گئے اقدامات میں پیشرفت کا جائزہ لے گی۔ ان گروپوں میں لشکر طیبہ اور افغان طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک بھی شامل ہے۔
سابق وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کا اس انٹرویو کے دوران یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی پابندیاں پاکستان کی طرف سے داخلی طور پر عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔ عباسی نے اس آپریشن کو ’’دنیا میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ‘‘ قرار دیا۔ ’’پاکستان پر کسی بھی طرح کی پابندیاں، اصل میں صرف دہشت گردی کے خلاف جاری ہماری جنگ کی صلاحیت کو متاثر کریں گی۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئے سال کے آغاز کے موقع پر پاکستان کے حوالے سے جاری کیے جانے والے ٹوئٹر پیغام کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کی یہ ٹوئٹ اپنے لہجے کے حوالے سے ’’نا قابل قبول‘‘ ہے اور یہ کہ افغانستان میں ناکامیوں پر پاکستان کو ’’قربانی کا بکرا‘‘ نہیں بنایا جانا چاہیے۔