’اسلامی ریاست عراق و شام‘ کے عسکریت پسند کون ہیں؟
23 جون 2014جرمن خبر ایجنسی ڈی پی اے نے اس عسکریت پسند تنظیم کے بارے میں ترکی کے شہر استنبول سے اپنے ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا ہے کہ اسلام پسند جنگجوؤں کا یہ گروہ یوں تو شام اور عراق دونوں ملکوں میں فعال ہے تاہم ان دونوں ریاستوں میں اس کے طریقے مختلف ہیں۔
انگریزی زبان میں اس تنظیم کو مختصراﹰ ISIL یا ISIS بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے جنگجو بیک وقت کئی مختلف محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ شام اور عراق میں یہ سنی عسکریت پسند دمشق اور بغداد میں حکومتوں اور ان کی فوجوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ بغداد میں وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت شیعہ مسلمانوں کی حکومت ہے اور دمشق میں صدر بشار الاسد کی انتظامیہ بھی شیعہ ہے کیونکہ علوی فرقہ بھی شیعہ مسلمانوں ہی کا ایک ذیلی فرقہ ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایس آئی ایل کے شدت پسند عراق اور شام میں شیعہ مسلمانوں اور ان کی حمایت کرنے والے سنی عناصر کے خلاف بھی مسلح کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ڈی پی اے کے مطابق اس تنظیم کے جنگجو اپنی سخت گیر سوچ میں اتنے پختہ ہیں کہ ان کے طرز عمل اور طریقہء کار کا موازنہ جرائم پیشہ افراد کے مافیا گروپوں سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ عسکریت پسند عوامی مقامات پر اپنے مخالف فوجیوں کو قتل کرتے ہیں اور عام شہریوں کے سر قلم کر دیتے ہیں۔
ڈی پی اے کے اس مراسلے کے مطابق ISIL کے یہ اسلام پسند جنگجو ایک ایسی ’خدائی ریاست‘ کے خواب دیکھ رہے ہیں جو بحیرہء روم کے ساحلوں سے لے کر خلیج فارس کے علاقے تک پھیلی ہوئی ہو۔
گزشتہ قریب ڈھائی ہفتوں سے یہ شدت پسند عراق کے زیادہ سے زیادہ علاقوں کو اپنے قبضے میں لیتے جا رہے ہیں۔ موصل عراق کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے لیکن موصل پر ان سنی عسکریت پسندوں نے ایک ہی جھٹکے میں قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد بغداد کی طرف پیش قدمی کے دوران کئی دیگر عراقی شہر اور قصبے بھی ان جنگجوؤں کے کنٹرول میں چلے گئے یا ان پر قبضے کے لیے شدید لڑائی جاری ہے۔ چند روز قبل اس مسلمان ملیشیا کے ارکان نے شام کے ساتھ عراقی سرحد کے قریب ایک اہم شہر پر بھی قبضہ کر لیا۔
جہاں تک شام کا تعلق ہے تو خانہ جنگی کے شکار اس ملک میں یہی دہشت گرد گروپ ایک باقاعدہ فریق بھی ہے۔ اس کی لڑائی شامی حکومتی دستوں اور ان کے حامی ملکی اور غیر ملکی شیعہ ملیشیا گروپوں کے مسلح ارکان سے بھی ہے اور خود اپنے مخالف دیگر اسلام پسند عسکریت پسند گروپوں سے بھی۔
شام میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کی مقامی شاخ النصرہ فرنٹ کہلاتی ہے۔ ماضی میں ایک تنظیم کے طور پر ’اسلامی ریاست شام و عراق‘ النصرہ فرنٹ کا حصہ تھی مگر بعد میں اس نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس وقت آئی ایس آئی ایل کے جنگجو شام کے شمال اور مشرق میں وسیع تر علاقوں پر قابض ہیں۔
جرمن پریس ایجنسی کے مطابق ان عسکریت پسندوں کے عراق اور شام میں حتمی اہداف تو بظاہر ایک ہیں لیکن ان ملکوں میں ان کا طرز عمل یکساں نہیں۔ شام میں وہ اپنے خوفناک مظالم کا نشانہ زیادہ تر عام شہریوں کو بناتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق شام میں یہ جنگجو لوگوں کو سرعام قتل کرتے ہیں اور بچوں تک کو کوڑے مارتے ہیں۔ اس کے برعکس عراق میں وہ عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، اس لیے کہ وہاں مزید پیش قدمی کے لیے انہیں عوامی حمایت کی ضرورت ہے۔
یہ جنگجو عراق کے حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اس لیے کہ 2003ء میں جب امریکا عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خلاف فوجی مداخلت کر چکا تھا، آج کی ISIL کی بنیاد اسی دور میں رکھی گئی تھی۔ تب ان جنگجوؤں نے اپنے گروپ کو القاعدہ سے قربت رکھنے والی تنظیم برائے توحید و جہاد کا نام دیا تھا۔
ڈی پی اے نے مختلف ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ آج اس تنظیم کے رکن جنگجوؤں کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہے۔ شروع میں ان کی مالی مدد مبینہ طور پر سعودی اور قطری عناصر نے کی لیکن اب یہ جنگجو اپنے مقاصد کے لیے مالی وسائل کے حصول کے کئی طریقے دریافت کر چکے ہیں۔ مثلاﹰ شام میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں آئل ریفائنریوں سے چوری کردہ تیل کی ہمسایہ ملکوں میں فروخت اور شہریوں سے وصول کیا جانے والا ’جہاد ٹیکس‘ بھی۔ ان عسکریت پسندوں نے موصل پر قبضے کے بعد وہاں عراقی مرکزی بینک کی مقامی شاخ سے قریب 318 ملین یورو کے برابر رقوم بھی اپنے قبضے میں لے لی تھیں۔