اسلامی ملکوں کا دہشت گردی اور فرقہ واریت کے خلاف جنگ کا عہد
15 اپریل 2016استنبول سے جمعہ 15 اپریل کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق کل 14 اپریل کو شروع ہو کر آج جمعے کو ختم ہونے والے اسلامی تعاون کی تنظیم یا OIC کے اس اجلاس کی اختتامی نشست کی صدارت میزبان ملک کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کی۔
سمٹ کے اختتامی اعلامیے میں وہاں موجود ملکوں کے نمائندوں نے شام اور عراق کے مختلف حصوں پر قابض دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی بھرپور مذمت کی۔ ساتھ ہی مختلف علاقائی تنازعات میں ایران اور مختلف ایران نواز تنظیموں اور گروپوں کے کردار کی بھی مذمت کی گئی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس سمٹ کے اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ترک صدر ایردوآن نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا، ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک ہی اس تہذیب کے وارث ہیں، جو امن اور انصاف کے ستونوں پر تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب ان اسلامی ملکوں کا ذکر جنگوں، مسلح تنازعات، فرقہ واریت اور دہشت گردی کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔‘‘
استنبول میں اس سربراہی کانفرنس کے دوسرے روز مندوبین نے بعد دوپہر جمعے کی نماز کے لیے ایک وقفہ بھی کیا، جس کے بعد رجب طیب ایردوآن نے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا، ’’مسلمانوں کی حیثیت سے ہم اپنے مسائل پر اس وقت تک قابو نہیں پا سکتے، جب تک کہ ہم باہمی اختلافات کے باوجود آپس میں کوئی اتفاق رائے پیدا نہ کریں۔‘‘
صدر ایردوآن نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ OIC 2025 نامی منصوبے کے تحت استنبول ہی میں جس بین الاقوامی ثالثی ادارے کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے، وہ ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی خیر مقدم کیا کہ اس تنظیم کی رکن ریاستوں نے کانفرنس کے پہلے روز اپنی مشاورت میں ترکی ہی میں مسلم ملکوں کے مابین پولیس کی سطح پر ایک مستقل رابطہ مرکز قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔ اس نئے پولیس رابطہ مرکز کے ذریعے تنظیم کی رکن ریاستیں دہشت گردی کے خلاف اپنا باہمی تعاون بہتر بنا سکیں گی۔
استنبول سمٹ میں دنیا بھر کے مسلم ممالک کے اعلیٰ ترین نمائندے شامل ہوئے۔ ان میں سعودی بادشاہ سلمان اور ایرانی صدر حسن روحانی بھی شامل تھے، جن کے ملکوں کے مابین یمن اور شام کے مسلح تنازعات کے باعث واضح اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں یہ توقع بھی ظاہر کی گئی کہ شام میں قیام امن کے لیے 13 اپریل سے جو مذاکرات جنیوا میں جاری ہیں، ان سے اس خونریز تنازعے کو ’جلد از جلد اور پرامن طریقے سے حل کرنے‘ میں مدد ملے گی۔
ساتھ ہی اس دستاویز میں صرف شام ہی نہیں بلکہ بحرین، یمن اور صومالیہ میں بھی ’ایران کی طرف سے مداخلت اور دہشت گردی کی مسلسل حمایت کی مذمت‘ بھی کی گئی۔ دیگر خبر رساں اداروں نے لکھا ہے کہ کانفرنس کے شرکاء نے دہشت گردی کے خلاف اس کی ہر شکل میں جنگ کرنے کا عہد کیا اور اس امر کی بھی مذمت کی کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی مرتکب ہوئی ہے۔
نیوز ایجنسیوں نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں لکھیں کہ کانفرنس کی اختتامی دستاویز میں مختلف علاقائی تنازعات میں ایران اور مسلح ایران نواز گروپوں کے کردار کی مذمت پر کانفرنس میں شریک ایرانی مندوبین نے کیا موقف اختیار کیا۔