1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ، ہندو برادری کا خیرمقدم

عبدالستار، اسلام آباد
29 اکتوبر 2020

پاکستان کی ہندو برادری نے اسلامی نظریاتی کونسل کی اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندو برادری دارالحکومت میں اپنا مندر تعمیر کر سکتی ہے اور یہ کہ یہ کام خلاف شریعت نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3kbVE
Pakistan Hindu-Tempel in Mansehra
تصویر: DW/S. Khan

کونسل نے ہندو برادری کو شمشان گھاٹ قائم کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ وہ سید پورگاؤں میں قائم ہندو مندر اور دھرم شالہ کو کمیونٹی کے حوالے کر دے۔ واضح رہے کہ یہ مندر برسوں سے بند ہے جبکہ دھرم شالہ بھی ہندو کمیونٹی کے پاس نہیں ہے۔

ہندو برادری میں خوشی کی لہر

پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر جے پال نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے: ''اس سے پاکسان کا امیج پوری طرح دنیا میں بہتر ہوگا۔ اس سے پہلے بھی حکومت نے کرتار پور کے حوالے سے اچھا فیصلہ کیا اور اب اس نے کمیونٹی سینٹر اور شمشان گھاٹ کی اجازت دے کر پوری ہندو کمیونٹی کا دل جیت لیا ہے۔ اس سے پوری برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔‘‘

اسلام کی روح اور اسلام آباد کا مندر

مندر کی تعمیر کی مخالفت: ’یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟‘

عبادت گاہوں کی آزادی بھی کتنی بڑی نعمت ہے

تھرپار کر سے تعلق رکھنے والی ہندو سماجی کارکن رادھا بھیل کا کہنا ہے کہ اس سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان قربت بڑھے گیی، ''ہندو اور مسلمانوں کے درمیان آزادی کے بعد مذہبی مقامات کے حوالے سے کچھ تنازعات تھے۔ اس فیصلے سے یہ تنازعات ختم ہوں اور دونوں برادریوں کے درمیان دوریاں ختم ہوں گی۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر پاکستان کے لیے جدوجہد کی۔ ہم اس ملک میں برابری کے حق ہیں۔ اس فیصلے سے ہم بہت خوش ہیں۔ یہ فیصلہ قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کی کڑی ہے۔‘‘

مزید اقدامات کی ضرورت

سندھ ہی سے تعلق رکھنے والے ہندو سماجی کارکن اور سندھ ہاری تحریک کے مرکزی رہنما نولرائے میگھواڑ کا کہنا ہے کہ اس حکومت نے اقلیتوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے لیکن اب بھی بہت کام کرنا ہے، ''ہم حکومت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے بہت شکر گزار ہیں۔ انہوں نے قائد کے فرمان کی پیروی کی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تمام پاکستانیوں کو مذہبی آزادیاں ہیں اور آج اس فیصلے سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان قائد کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے۔‘‘

نولرائے میگھواڑ کا کہنا ہے کہ ابھی بھی بہت سے کام ہونے چاہیں، ''ہنگلاج اور تھرپارکر میں کئی ایسے مندر ہیں، جن پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ شمشان گھاٹ کی بھی کمی ہے۔ مندورں کی تزئین وآرائش کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

شکوہ و شکایات

گھوٹکی سے ہندو کمیونٹی کے نامور رہنما تیکم داس کا کہنا ہے کہ برادری کی زمینوں پر قبضہ ہوا ہے۔ جسے چھڑانا چاہیے: ''گھوٹکی میں ہماری مندر کی زمین پر قبضہ ہوا۔ مقامی انتظامیہ قبضہ گیروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ برادری سے تعاون کرے اور اس قبضے کو چھڑائے۔‘‘

ڈاکٹر جے پال کہنا تھا کہ آئین میں ایسی شقیں ختم کی جائیں، جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اہم عہدے اقلیتوں کو نہیں مل سکتے: ''اس کے علاوہ سندھ میں سادھو بیلا کے مندر کو سہولیات فراہم کی جائیں۔ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین کسی ہندو کو بنایا جائے کیونکہ وہ اس حوالے سے بہتر کام کر سکتا ہے اور بالجبر تبدیلی مذہب کو روکا جائے۔‘‘