1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی، مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندی سے محفوظ کیسے رکھا جائے؟

28 مئی 2016

جرمنی کے پروٹسٹنٹ چرچ کے بشپ کا کہنا ہے کہ ریاست کی طرف سے جرمن اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کی فراہمی نوعمر مسلم طلبا کو انتہا پسند تصورات سے بچا سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IwNV
تصویر: picture alliance / dpa

اسقف ہائنرش بڈفورڈ اشٹروہم نے جرمنی کے تمام اسکولوں سے مذہبی تعیلم کا بندوبست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک جرمن روزنامے ’ہائلبرونراشٹمے‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے بشپ ہائنرش بڈفورڈ اشٹروہم کا کہنا تھا، ’’نو عمر مسلم طالبعلموں کو اپنی مذہبی روایات کا تنقیدی جائزہ لینے کا موقع ملنا چاہیے۔‘‘ بشپ کے خیال میں یہی بہترین طریقہٴ کار ہو سکتا ہے، مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندانہ رجحانات کی مزاحمت کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنے کا۔

جرمنی کے پروٹسٹنٹ چرچ کے بشپ نے ملک گیر سطح پر اسکولوں میں مسلم بچوں کے لیے اسلامیات کی تعلیم کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس طرح ان طالبعلموں کو جرمن آئین کی بنیاد پر اسلام کے بارے میں شعور و آگہی حاصل کرنے کا موقع ملے گا:’’رواداری، مذہبی آزادی اور اخلاقیات پر ہر مذہب زور دیتا ہے۔ ان اصولوں کی تعلیم بہترین انداز میں دی جانی چاہیے اور یہ ریاست کے تعلیمی مشن کا حصہ ہے۔‘‘

بشپ ہائنرش بڈفورڈ اشٹروہم نے اسلامی تنظیموں سے کہا ہے کہ وہ کلیساؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اُسی طرح اسکولوں میں مذہبی تعلیمات کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں، جس طرح چرچ یہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔

Deutschland Türkei INFO Studie Junge Deutschtürken überdurchschnittlich religiös
جرمنی کے چھ صوبوں میں جونیئیر کلاسوں میں اسلامیات کی بنیادی تعلیات کا بندو بست ہےتصویر: dapd

چھ جرمن صوبوں میں اسلامی تعلیمات

جرمنی کے تمام صوبوں کی تعلیمی اور ثقافتی پالیسیوں کو مربوط بنانے کے لیے قائم ایک سرکاری ادارے کے مطابق جرمنی کے اٹھارہ میں سے چھ صوبوں کے پرائمری اسکولوں میں پہلے ہی سے اسلامیات کی تعلیم کا بندوبست تجرباتی طور پر کیا گیا ہے۔ ان میں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا، باویریا، ہیسے، لوئر سیکسنی، رائن لینڈ پلاٹینیٹ اور باڈن ورٹمبرگ شامل ہیں۔ جرمن کیتھولک چرچ کے نمائندوں نے پروٹسٹنٹ چرچ کے بشپ کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ماضی میں اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کی فراہمی کو جرمن آئین کے تحت شامل کیے جانے کا مطالبہ کر چُکے ہیں۔

باویریا کے ثقافتی اور تعلیمی امور کے وزیر لڈوِک اشپینلے نے بھی کہا ہے کہ جرمن اسکولوں کے بچوں کو اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کرنے کے مواقع میسر ہونے چاہیٍں تاہم فی الحال جرمنی کی مسلم برادری کی طرف سے کسی نے بھی اس بارے میں مکالمت کے لیے ایک پارٹنر کی حیثیت سے تسلی بخش کردار ادا نہیں کیا ہے۔