اسلحے کی عالمی تجارت کے بارے ميں کانفرنس
3 جولائی 2012اسلحے کی عالمی تجارت کے بارے ميں اس کانفرنس کا آغاز کل پير کو ہونا تھا ليکن عرب ممالک کا مطالبہ ہے کہ فلسطينيوں کو بھی کانفرنس ميں نمائندگی ملنی چاہيے۔ اُن کے اس مطالبے پر اسرائيل نے کانفرنس سے واک آؤٹ کر جانے کی دھمکی دے دی۔ کانفرنس ميں شرکت کے ليے اقوام متحدہ کے ہيڈکوارٹر پہنچنے والے ايک مغربی ملک کے وزير نے کہا: ’’يہ صورتحال اس کانفرنس کے ليے بہت خراب ہے جو کہ ايک بہت اہم موضوع پر ہونے جا رہی تھی۔‘‘
اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک کی کانفرنس کو کل پير کو شروع ہو کر 27 جولائی تک جاری رہنا تھا۔ ليکن فلسطينيوں کی شرکت کے سوال پر تنازعہ شروع ہو گيا جسے کانفرنس کے آغاز سے چند گھنٹے قبل تک بھی حل نہيں کيا جا سکا۔ اقوام متحدہ کے سکريٹری جنرل بان کی مون نے اپنی افتتاحی تقريرمنسوخ کر دی اور يہ واضح نہيں تھا کہ کانفرنس کب شروع ہو سکے گی۔
عرب ممالک کا مطالبہ ہے کہ فلسطينيوں کو بھی اس کانفرنس ميں شرکت کا موقع ديا جائے جو بين الاقوامی سطح پر اپنی موجودگی ميں اضافے کی کوششيں کر رہے ہيں۔ عرب ممالک نے يہ بھی مطالبہ کيا ہے کہ اگر فلسطينيوں کو کانفرنس ميں شرکت سے روکا جائے تو پھر يورپی يونين کو بھی کانفرنس سے باہر رکھا جائے۔ ايک عرب سفارتکار نے کہا کہ مصر عرب ملکوں کے گروپ کی نمائندگی کر رہا ہے۔
فلسطينيوں کو اس کانفرنس ميں مبصر کی حيثيت حاصل ہے جبکہ يورپی يونين اعلٰی مبصر ہے۔ ويٹيکن نے، جو اقوام متحدہ ميں مبصر کی حيثيت رکھتا ہے مطالبہ کيا ہے کہ اگر فلسطينيوں کو اس کانفرنس ميں شرکت کا موقع ديا جاتا ہے تو ويٹيکن کو بھی يہی موقع ديا جائے۔
عرب اور اسرائيلی ذرائع کا کہنا ہے کہ مشرق وسطٰی ميں اسلحہ بنانے والے اہم ترين ملک اسرائيل نے کہا ہے کہ اگر فلسطينی کانفرنس ميں حصہ ليں گے تو وہ اس ميں شريک نہيں ہوگا۔
فلسطينی اقوام متحدہ کی مکمل رکنيت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔ ايک مغربی سفارتکار نے مصری اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض ممالک کو اسلحے کی تجارت کے بارے ميں ايک ايسے سمجھوتے کا خطرہ ہے جس ميں انسانی حقوق پر زور ديا گيا ہو اور اس ليے وہ فلسطينيوں کے جائز موقف کو اپنے مقاصد کے ليے استعمال کر رہے ہيں۔ مصر اسلحے کا ايک بڑا خريدار ہے اور وہ امريکہ سے ملنے والی سالانہ امدادی رقم کا اکثر حصہ ہتھياروں کی خريداری پر خرچ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسلحے کی عالمی تجارت کو ايک ضبط کے تحت لانے کے ليے اس کانفرنس کی تياری پر سات سال لگائے ہيں۔
دنيا ميں اسلحے کی سب سے زيادہ تجارت امريکا کے ہاتھ ميں ہے اور40 فيصد سے زائد روايتی اسلحہ امريکی فرميں ہی فروخت کرتی ہيں۔ اُس کے بعد برطانيہ، چين، فرانس، جرمنی اور روس کا نمبر آتا ہے۔ چين، روس اور عرب ممالک کا کہنا ہے کہ کانفرنس ميں اسلحے کی تجارت کے جس معاہدے پر غور ہوگا وہ سياسی مقاصد کے تحت تيار کيا گيا ہے۔ آسٹريليا کے وزير خارجہ بوب مار نے کہا کہ دنيا ميں روزانہ 2000 افراد چھوٹے ہتھياروں کی غير قانونی تجارت کے نتيجے ميں ہلاک ہو رہے ہيں۔
sas/km/AFP