1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلحے کے انبار بڑھنے لگے، سفارت کاری کا دور ختم؟

شمشیر حیدر Kersten Knipp
24 اپریل 2017

ایک رپورٹ کے مطابق سن 2011 کے بعد پہلی مرتبہ دنیا بھر میں مجموعی طور پر دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ کون سے ممالک اسلحے پر زیادہ خرچہ کر رہے ہیں اور کیوں؟ کیا سفارت کاری اور عالمی اداروں پر انحصار ختم ہوتا جا رہا ہے؟

https://p.dw.com/p/2bodg
Symbolbild Deutschland Waffenexporte Leopard 2 A6
تصویر: picture-alliance/dpa

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پِیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جاری کردہ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے ممالک ہتھیاروں اور دفاعی آلات پر زیادہ خرچہ کر رہے ہیں۔ دفاعی اخراجات میں اضافے کی شرح میں عالمی سطح پر سن 2011 کے بعد پہلی مرتبہ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن 2016 میں دنیا بھر میں مجموعی طور پر 1.68 ٹریلین ڈالر ہتھیاروں پر خرچ کیے گئے جو کہ اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 0.4 فیصد زیادہ ہے۔

اسلحے کی عالمی منڈی پر امریکی اجارہ داری

دیگر ممالک کے مقابلے میں دفاعی بجٹ میں سب سے زیادہ اضافہ امریکا روس اور چین نے کیا۔ جب کہ روایتی طور پر ہتھیاروں پر زیادہ خرچہ کرنے والے ملک، سعودی عرب نے گزشتہ برس دفاعی بجٹ میں کمی کی۔ تاہم اس کی ایک بڑی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد سعودی اقتصادی صورت حال تھی۔

دفاعی بجٹ میں اضافے کے اس عالمی رجحان کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی امور کے ماہر ماریوس بالیس کا کہنا تھا، ’’ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں اب مسائل کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری اور عالمی اداروں پر انحصار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی لیے دنیا کے ممالک انفرادی طور پر اپنے دفاع کا بندوبست کر رہے ہیں۔‘‘

فوج کی اہمیت میں اضافہ

بالیس کے مطابق مشرق وسطیٰ میں جاری جنگیں، کریمیا کا روس سے الحاق، جنوبی بحیرہ چین میں کشیدگی جیسے عوامل  کے باعث یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں بھی مسلح تنازعات اور جنگوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جب کہ بین الاقوامی اداروں پر اعتماد بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں ملکی فوج کی اہمیت بڑھ چکی ہے جس کے باعث دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

دنیا کی مضبوط ترین عسکری قوت رکھنے والے ممالک بھی انہی وجوہات کی بنا پر دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ہتھیاروں پر جتنی سالانہ رقم خرچ کی جاتی ہے، اس کی چھتیس فیصد مالیت صرف امریکی دفاعی بجٹ کی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ برس امریکا نے دفاعی بجٹ میں مزید 1.7 فیصد اضافہ کیا۔ امریکی دفاعی بجٹ 611 بلین ڈالر ہے۔

عالمی سیاست کی حالیہ صورت حال کے باعث روس نے بھی اپنے دفاعی بجٹ میں 5.9 فیصد اضافہ کیا ہے۔ تناسب کے اعتبار سے یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ رہی۔ روسی دفاعی بجٹ کی مالیت 69.2 بلین ڈالر رہی۔ جب کہ چینی دفاعی بجٹ 215 بلین ڈالر ہے۔ چین نے بھی سن 2016 میں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 5.4 فیصد زیادہ رقم دفاع پر خرچ کی۔

مشرق وسطیٰ اور یورپ کی صورت حال

حالیہ برسوں کے دوران مشرق وسطیٰ خانہ جنگیوں اور مسلح تنازعات کا مرکز رہا۔ شام کی مسلسل بگڑتی صورت حال، داعش اور دیگر جنگ جو تنظیمیں، سعودی عسکری اتحاد کی یمن میں جاری جنگ چند نمایاں مسائل ہیں۔

سعودی عرب نے سن 2015 میں اس سے پچھلے برس کے مقابلے میں دفاعی بجٹ میں خاصا اضافہ کیا تھا۔ سن 2014 میں یہ ملک دفاع پر ملکی جی ڈی پی کا 9 فیصد خرچ کر رہا تھا، جسے بڑھا کر 13 فیصد کر دیا گیا۔ تاہم تیل کی کم قیمتوں کے باعث اقتصادی صورت حال میں ابتری کے بعد سن 2016 میں اسے دوبارہ کم کر کے جی ڈی پی کے دس فیصد تک لے آیا گیا۔

اسی طرح یورپی ممالک نے بھی مجموعی طور پر دفاعی بجٹ میں 2.6 فیصد اضافہ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یورپی ممالک روس سے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ تاہم بالیس کے مطابق اگر روس اور یورپ کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوا تو ایک مرتبہ پھر مشرق اور مغرب کے مابین اسلحے کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔

دنیا بھر کو مجموعی اسلحے کا نصف امریکا اور روس نے فراہم کیا