1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسپاٹ فکسنگ ٹرائل اپنے اختتام کے قریب

26 اکتوبر 2011

لندن کی ایک عدالت میں تین پاکستانی کرکٹرز کے خلاف جاری مقدمہ اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔ کراؤن کورٹ کے جج نے دو تین ہفتوں سے جاری عدالتی کارروائی کی سمری پیش کرنا شروع کردی ہے۔

https://p.dw.com/p/12zEy
محمد عامرتصویر: AP

برطانوی دارالحکومت لندن کے سدرک کراؤن کورٹ میں پاکستانی کرکٹرز کے خلاف جاری اسپاٹ فکسنگ مقدمے کی سماعت کرنے والے جج جسٹس جیریمی کُک نے جیوری کو ہدایت کی ہے کہ وہ مظہر مجید اور فاسٹ بالر محمد عامر کو بھی اسپاٹ فکسنگ کے معاملے میں ملوث خیال کریں۔ جج نے یہ ریمارک دو تین ہفتوں سے جاری عدالتی کارروائی کا خلاصہ پیش کرنے کے دوران دیا۔ جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ تمام پارٹیوں کی جانب سے پیش کردہ دلائل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مظہر مجید اور محمد عامر اس معاملے میں پوری طرح ملوث ہیں۔

عدالتی کارروائی کے دوران بُکی مظہر مجید اور فاسٹ بالر محمد عامر کو حاضری سے استثناء حاصل تھا۔ ان کی عدم موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس جیریمی کُک نے جیوری سے یہ بھی کہا کہ وہ ان کی غیر حاضری سے قطعاً متاثر نہ ہوں اور تمام شہادتوں کی روشنی میں ان کے کردار پر غور کریں اور شہادتوں اور فراہم کردہ ثبوت سے ہی جیوری درست فیصلے تک پہنچ پائے گی۔ جج نے جیوری کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ عدالت کے کمرے سے باہر پیدا شدہ رائے اور ماحول سے کسی طور متاثر نہ ہو اور اپنے اندر ہمدردی کے جذبے کو کسی طور داخل نہ ہونے دے۔

Kombo Pakistan Cricket Korruption Salman Butt Mohammad Asif und Mohammad Amir
تینوں پاکستانی کرکٹرز پر الزامات ثابت ہونے پر ان کو نو سال تک کی سزا سنائی جا سکتی ہےتصویر: AP

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سلمان بٹ اور فاسٹ بالر محمد آصف کو دھوکہ دہی اور رشوت قبول کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان پر یہ الزامات گزشتہ سال پاکستانی ٹیم کے دورہ ء انگلستان کے دوران سامنے آئے تھے۔ عدالتی کارروائی کے دوران استغاثہ اور دفاع نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔ محمد آصف اور سلمان بٹ ان الزامات کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔

منگل کے روز سلمان بٹ کے وکیل علی باجوہ نے جوابی دلائل پیش کیے۔ اس میں ان کا مؤقف تھا کہ مجرمانہ سازش مظہر مجید، محمد آصف اور امکاناً محمد عامر کے درمیان پائی جا سکتی ہے اور اس میں ان کے مؤکل سلمان بٹ کا کوئی کردار نہیں ہے۔ علی باجوہ نے جیوری سے اپیل کی کہ وہ اس مقدمے میں پائی جانے والی کسی تھیوری یا مفروضوں پر غور نہ کرے بلکہ ٹھوس شہادتوں پر توجہ مرکوز رکھے۔ اور دوسر جانب محمد آصف کے وکیل الیگزینڈر مائلنے (Alexander Milne) کا کہنا تھا کہ پولیس ان کے مؤکل کے کمرے سے نشان زدہ نوٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور پیش کردہ رقم کا ایک نوٹ بھی محمد آصف کے حصے میں نہیں آیا ۔

کراؤن کورٹ میں فوجداری مقدمات میں استغاثہ اور صفائی کے وکلاء کے دلائل کی تکمیل کے بعد عدالت کے سربراہ جج کی جانب سےسمری پیش کی جاتی ہے۔ سمری کا عمل مکمل ہونے پر قائم کردہ جیوری فراہم کردہ شہادتوں پر غور و خوض کرتی ہے اور اس کے بعد عدالت کے جج اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں