سیلاب، اسہال، ملیریا، وبائی امراض،پاکستان
25 جولائی 2011ایک سال قبل پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے ملک اور عوام کو جو مالی اور جانی نقصان پہنچایا تھا اس کا ازالہ تو کجا اس سے متاثر ہونے والے انسانوں کی صورتحال ہنوز ناگفتہ بہ ہے۔ خاص طور سے سب سے زیادہ سیلاب کی زد میں آنے والے علاقوں کے گھر بار سے محروم ہو جانے والے مکینوں کو اب بھی گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔
گزشتہ برس ان ہی دنوں کی بات ہے جب پاکستان کے طول و ارض کو تہ و بالا کردینے والے سیلاب کی بے رحم لہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں، جو مصائب و آلام پیدا کیے اس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی- گزشتہ سال جولائی کے اواخر میں مون سون بارشوں کے ساتھ آنے والا سیلاب نہ صرف 20 ملین انسانوں کے گھروں، املاک، کاروبار، روزگار اور فصلوں کو نیست و نابود کرنے کا باعث بنا بلکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2000 کے قریب پاکستانی باشندے لقمہ اجل بنے۔ المیہ یہ کہ متاثرین سیلاب کی ایک بڑی تعداد، جو بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے ایک سال بعد بھی امدادی کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہے، اسے پینے کے صاف پانی، غذا، ادویات اور حفظان صحت کے لیے درکار اہم سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ پاکستان میں تقریبا ایک دہائی سے مصروف عمل جرمن ادارہ برائے بین الاقوامی اشتراک عمل GIZ وفاقی جرمن وزارت برائے اقتصادی اشتراک عمل اور ترقی کے لیے کام کرتا ہے۔ اس کے پاکستان میں قائم دفتر کے سربراہ ہنس اشٹائن من سے ہم نے رابطہ کیا اور پوچھا کہ سیلاب متاثرین کی صورتحال ایک سال بعد کیسی دکھائی دیتی ہے تو ان کا کہنا تھا، ’پورے ملک کی صورتحال کے بارے میں کوئی عمومی بیان نہیں دیا جا سکتا۔ مختلف صوبوں میں حالات ایک دوسرے سےکہیں مختلف ہیں۔ شمال مغربی صوبے میں زندگی کافی حد تک معمول پر آ گئی ہے۔ تباہ ہو جانے والے رہائشی علاقوں کی تعمیر نو کی گئی ہے اور مقامی باشندے اپنے علاقوں کی طرف لوٹ گئے ہیں اور اپنے مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ تاہم زیادہ تر مکانوں کی چھت نہیں ہے بلکہ وہ پلاسٹک شیٹس کی چھتوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جیسے جیسے جنوب کی طرف، صوبے پنجاب، خاص طور سے سندھ کی طرف آئیں وہاں کی صورتحال اب بھی سنگین ہے۔ یہاں سیلاب کا پانی اپریل اور مئی کے ماہ تک کھڑا تھا، کیونکہ ان علاقوں میں نکاسی ءِ آب کا کوئی قدرتی نظام موجود نہیں تھا۔ بہت سے متاثرین اب بھی بے گھر ہیں اور کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ وہ اپنے مکانوں کی تعمیر نو نہیں کر سکتے کیوں کہ وہاں کی زمین اب بھی دلدل بنی ہوئی ہے۔ جنوبی صوبے سندھ میں اب بھی غذا کی قلت پائی جاتی ہے۔ صورتحال ہنگامی نہیں کہی جا سکتی کیوں کہ غذا کی فراہمی کا کام کسی حد تک ہوا ہے، تاہم صورتحال سنگین ہے‘۔
GIZ نے گزشتہ دو سالوں سے پاکستان میں صحت کا ایک خصوصی پروگرام شروع کر رکھا ہے۔ حالیہ سیلاب کے آتے ہی اس ادارے نے ہنگامی امدادی کام شروع کر دیا تھا- اس کی طرف سے واٹر فلٹرز اور ملیریا سے بچاؤ کے لیے مچھر دانیاں تقسیم کی گئیں تاہم یہ اقدامات متاثرین کی اتنی بڑی تعداد کے لیے کافی نہیں ہو سکتے- ہنس اشٹائن من کے بقول، ’سیلاب کے بعد ہم نے سول سوسائٹی کے بہت سے سرگرم عناصر، غیر ملکی تنظیموں اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں، جن میں عالمی ادارہ صحت بھی شامل ہے اور یونیسیف وغیرہ، کے ساتھ مل کر کام کیا۔ تاہم پانی کا فلٹر اور مچھر دانیاں ہم صرف دس ہزار خاندانوں تک پہنچا سکے ہیں۔ اگر فی خاندان اوسطاً پانچ فیملی ممبر کا بھی حساب لگایا جائے تو ہماری اس مہم سے محض 50 ہزار افراد استفادہ کر سکے ہیں۔ تمام متاثرین کو یہ سہولیات پہنچانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے‘۔
کون کون سی بیماریاں ہنوز متاثرین کی صحت کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں؟ اس بارے میں ہنس اشٹائن من کہتے ہیں، ’ہیضے کی وبا بری طرح پھیلی تھی تاہم اُس پر اب قابو قا لیا گیا ہے۔ اکا دکا علاقے ہیں، جہاں اب بھی کولرا کے کیسس سامنے آ رہے ہیں۔ تاہم وبا کی صورتحال اب نہیں پائی جاتی۔ تاہم پہلے کی طرح اب بھی اسہال، ملیریا، امراض جلد وغیرہ بڑے مسائل کی صورت میں موجود ہیں‘۔
ان تمام بیماریوں کی جڑ دراصل حفظان صحت اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے۔ GIZ دیگر اداروں کے تعاون سے کوشش کر رہا ہے کہ بڑے بڑے واٹر پلانٹس پاکستان لائے جائیں تاکہ ملک گیر سطح پر پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ تاہم ہنس اشٹائن من کے مطابق، ’پینے کا صاف پانی پہلے بھی ایک بڑا مسئلہ تھا اور اب بھی ہے۔ آنے والے مونسون کے دوران اس صورتحال میں مزید سنگینی آئے گی‘۔
GIZ کی سرگرمیوں کا مرکز شمال مغربی صوبہ ہے، جہاں وہ ایک عشرے سے تعلیم، صحت اور پیشہ ورانہ تربیت کے پروجیکٹس جاری رکھی ہوئے ہے- تاہم GIZ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس سال مونسون کی آمد آمد ہے اور سیلاب کے خطرات پھر سے منڈلا رہے ہیں- ان کے ادارے نے صوبائی اور ڈسٹرکٹ سطح پر ناگہانی آفات سے بچاؤ کا دفتر قائم کیا ہے- اس کی مدد سے ممکنہ سیلاب کے خطرے سے دوچار تقریبا ایک ملین انسانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا- یا تو انہیں سیلاب کی زد میں آنے والے علاقوں سے بروقت نکال لیا جائے گا یا ان کے رہائشی علاقوں میں مناسب انتظامات کے ذریعے انہیں ان علاقوں میں گھر بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی،جہاں سیلاب آنے کا خطرہ ہو-
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق