اسے کہتے ہیں بڑا کھیل، ہاتھیوں کی پولو
تھائی کے بادشاہ وجیرا لونگ کورن کی سرپرستی میں روایتی ہاتھی پولو ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر دس ٹیمیں شریک تھیں۔
گھوڑوں کی طرح لیکن سست پولو
ہاتھیوں کی پولو بھی بالکل گھوڑوں کی پولو کی طرح کھیلی جاتی ہے۔ سفید بال کو حریف ٹیم کے گول تک لانا ہوتا ہے۔ گھوڑوں کی پولو کے برعکس اس میں میدان چھوٹا، ہاکیاں لمبی اور کھیل کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔
20 ہاتھی، 40 کھلاڑی
ٹورنامنٹ میں بیس ہاتھی حصہ لیتے ہیں اور یہ سبھی مادہ ہاتھی ہوتے ہیں۔ ان کی تربیت خاص طور پر اس کھیل کے لیے کی جاتی ہے۔ سیاحتی مقامات پر بھی یہی ہاتھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہر ہاتھی کے اوپر دو کھلاڑی سوار ہوتے ہیں۔
ہاکی کے لیے ایک یا دو ہاتھ؟
یہ پولو خواتین اور مرد دونوں ہی کھیل سکتے ہیں۔ خواتین کو دو سے تین میٹر لمبی ہاکی اور دونوں ہاتھ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس کے برعکس مرد کھلاڑی صرف ایک ہاتھ استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک میچ سات سات منٹ کے دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
اس کھیل کا خیال کِسے آیا؟
اس کھیل کا خیال 1981ء میں سوئٹزر لینڈ کے شوٹے جیمز اور بریٹے جِم ایڈروڈ کو اس وقت آیا، جب وہ سوئٹزرلینڈ کے شہر زانکٹ مورٹیس میں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایڈروڈ کا نیپال میں ایک ہوٹل ہے اور جیمز پولو کے کھلاڑی ہیں۔ اس کے ایک سال بعد ’ورلڈ ایلیفینٹ پولو ایسوسی ایشن‘ کی بنیاد رکھی گئی۔
متنازعہ کھیل
جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں اس کھیل کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ ان کے مطابق ہاتھی اس کھیل کے لیے غیرموزوں ہیں۔ رواں برس بھی اس بات پر احتجاج کیا گیا تھا کہ ہاتھیوں کو لاٹھیوں سے مارا گیا ہے۔ ہاتھیوں پر تشدد کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر لائی گئی تھی۔
کھیل کے بعد بھوک
ہرمیچ کے آغاز اور اختتام پر ہاتھیوں کو ان کا پسندیدہ کھانا کھلایا جاتا ہے۔ ہاتھی انناس، پپیتہ، کیلا، گنے اور نمک کے ساتھ چاول شوق سے کھاتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں تقریبا چار ہزار جنگلی ہاتھی موجود ہیں جبکہ پالتو ہاتھیوں کی تعداد تقریبا چار ہزار سات سو ہے۔
ہاتھیوں کو لاحق خطرات
جنگلی ہاتھیوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی ہوتی جا رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لکڑی کے حصول کے لیے درخت کاٹے جا رہے ہیں اور ان کا قدرتی ماحول سکڑتا جا رہا ہے۔