اشتعال انگیز لٹریچر کے خلاف کریک ڈاؤن ، 58 گرفتار
5 جنوری 2015کوئٹہ اور صوبے کے بعض دیگر اضلاع میں جاری اس کارروائی کے دوران اب تک 58 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن کے قبضے سے بڑے پیمانے پر ٹی ٹی پی، افغان طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کا جہادی مواد، آڈیو، ویڈیو پیغامات اور دیگر حساس دستاویزات برآمد ہوئی ہیں۔ کارروائی کے دوران کوئٹہ کے مرکزی علاقے میں اہم کاروباری مراکز پر بھی چھاپے مارے گئے اور چالیس دکانوں کو اس ممنوعہ مواد کی خرید و فروخت پر سیل کر دیا گیا ہے۔
حکام کے مطابق سکیورٹی فورسز نے پیر کو شروع کی گئی اس کارروائی کے دوران 15ایسے مذہبی اسکالرز کو بھی گرفتار کیا ہے، جن پر تقاریر کی آڑ میں طالبان کی حمایت اور اشتعال انگیزی پھیلانے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ ان افراد کا تعلق، مستونگ، بولان ، پشین اور زیارت کے علاقوں سے ہے اور مزید تحقیقات کے لیے انہیں کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔
صوبائی سکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی کے بقول گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق شدت پسندوں کی ان حامی تنظیموں سے ہے، جو کہ خفیہ طور پر ان کی مہم صوبے میں چلا رہی ہیں۔ ان کے مطابق یہ تنظیمیں اشتعال انگیز لٹریچر اور دیگر مواد کی آڑ میں باالخصوص نوجوانوں کو طالبان تحریک کا حصہ بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔
ڈویچے ویلے سے گفتگو کے دوران ان کا مزید کہنا تھا، ’’کوئٹہ اور بعض دیگر علاقوں میں شدت پسندوں نے بڑے پیمانے پر جہادی لٹریچر اور دیگر مواد تیار کیا ہے، جسے اہم کاروباری مراکز اور دیہی علاقوں میں قائم دکانوں میں سپلائی کیا گیا تھا۔ انٹیلی جنس اطلاعات کی روشنی میں اس حوالے سے فوری کارروائی کی گئی۔ جو لوگ گرفتار کیے گئے ہیں ان کی نشاندہی ہر ان مقامات پر بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں، جہاں سے شدت پسندی کا مزید لٹریچر کی برآمدگی کا امکان ہے۔‘‘
دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار جنرل( ر) طلعت مسعود کے بقول نوجوان نسل کو شدت پسندی کی جانب مائل کرنے کے لیے ایک منظم منصوبے کے تحت کام کیا جا رہا ہے اور اس خفیہ مہم میں شدت پسندوں کا ایک اہم ہتھیار ان کا وہ لٹریچر بھی ہے، جسے باآسانی مارکیٹو ں میں سپلائی کر دیا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’شدت پسند مذہب کی آڑ میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور ان کا لٹریچر ملک بھر میں با آسانی دستیاب ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے نظریے سے عوام کو دور رکھا جائے۔ کیونکہ قبائلی علاقوں میں بے حد آسانی سے سادہ لوح عوام کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے اور اس متنازعہ لٹریچر اور آڈیو ویڈیو پیغامات سے لوگوں کے دلوں میں حکومت کے خلاف نفرت بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت کا کُھل کر ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
طلعت مسعود کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں شدت پسندوں اور ان کے حامی گروپوں کے خلاف جوکارروائی کی جارہی ہے وہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بلا تفریق کی جائے تاکہ عام لوگ بھی ان انتہا پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور حکومت کا ساتھ دیں، ’’ ہم نے اب تک بہت وقت ضائع کیا ہے، جو کام پہلے ہونا چاہیے تھا اب اس لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ ملک میں عسکریت پسندی کی تمام حدیں عبورکر دی گئی ہیں۔ شدت پسند تنظیمیں اپنے لٹریچر کی آڑ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کے خلاف جاری جنگ ایک مذہبی جنگ ہے جس میں وہ اپنے ساتھ عوام کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ متنازعہ لٹریچر پر صرف پابندی کافی نہیں ہے بلکہ قوم میں مذہبی حوالے سے منافرت اور اشتعال انگیزی پیدا کرنے والے اس لٹریچر کے مصنفین اور ناشرین کو بھی سزا ملنی چاہیے۔‘‘
واضح رہے کہ سانحہ پشاور کے بعد ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے روپوش شدت پسندوں کے خلاف کارروائی تاحال جاری ہے اور اب تک اس کارروائی کے نتیجے میں 25 مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جن میں ان کے کئی اہم مقامی کمانڈرز بھی شامل ہیں۔