بھارت: اعلی طالبان رہنماؤں کے ساتھ پہلی باضابطہ ملاقات
21 اکتوبر 2021بھارت نے بھی بدھ کے روز ماسکو میں افغان کانفرنس کے بعد دس ملکوں کی طرف سے جاری کردہ اس بیان کی تائید کی ہے جس میں افغانستان پر طالبان کی حکومت کو ایک ”نئی حقیقت" کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں شریک بھارتی وزارت خارجہ کے اعلی عہدیداروں نے طالبان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی اور وزیر خارجہ عامر خان متقی کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور کابل حکومت کو انسانی امداد کی پیش کش کی۔
طالبان کے وزیر اطلاعات و نشریات اور ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی ٹوئٹ کے ذریعہ اس ملاقات کی خبر دی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان، افغانستان اور ایران کے لیے بھارت کے خصوصی نمائندے اور بھارتی وزارت خارجہ میں جوائنٹ سکریٹری جے پی سنگھ اور طالبان کے وفد کے درمیان بدھ کے روز با ت چیت ہوئی۔
ذبیح اللہ مجاہد نے ایک دیگر ٹوئٹ میں کہا،”دونوں فریق ایک دوسرے کی تشویش اور فکرمندیوں پر غور کرنا اور سفارتی اور اقتصادی تعلقات بہتر بنانا ضروری سمجھتے ہیں۔" انہوں نے مزید لکھا،”بھارتی ایلچی نے کہا کہ افغانستان کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ افغانستان مشکل صورت حال سے گزر رہا ہے۔ بھارت افغانستان کو انسانی امداد دینے کے لیے تیار ہے۔“
پہلی باضابطہ میٹنگ
بھارت نے طالبان کے نائب وزیر اعظم اور دیگر رہنماوں کے ساتھ اس ملاقات کے بارے میں فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ تاہم حکومتی ذرائع نے اس ملاقات کی تصدیق کی اور کہا کہ بھارت گیہوں اوردیگر اشیاء کی ایک بڑی کھیپ افغانستان کو انسانی امداد کے طور پر بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق نئی دہلی جلد ہی 50 ہزار میٹرک ٹن گیہوں اور ادویات روانہ کرنے والا ہے تاہم بھارت چاہتا ہے کہ اس کی تقسیم اقوام متحدہ کے ذریعہ کی جائے۔
یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نے افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد حکومتی طور پر اسے امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نئے حالات میں جگہ بنانے کی کوشش
گزشتہ چند ماہ کے دوران گوکہ دوحہ میں بھارتی سفیر نے طالبان کے رہنماوں سے ملاقات کی تھی اور ایک بھارتی وفد نے دوحہ میں کثیر ملکی میٹنگ میں حصہ بھی لیا تھا۔ لیکن بدھ کے روز پہلی مرتبہ بھارتی وزارت خارجہ کے اعلی عہدیداروں نے طالبان کے نائب وزیر اعظم سمیت دیگر اعلی رہنماوں سے تبادلہ خیال کیا۔
یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جب بھارت اگلے ماہ افغانستان کے حوالے سے پڑوسی ملکوں کے قومی سلامتی مشیروں کی ایک اعلی سطحی میٹنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ اس میں پاکستان، چین، ایران، روس اور تاجکستان جیسے ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ یہ میٹنگ ممکنہ طورپر گیارہ نومبر کو ہوگی۔ بھارت نے پاکستان کے قومی سلامتی مشیر معید یوسف کو بھی دہلی آنے کی دعوت دی ہے۔
قومی سلامتی مشیروں کی اس میٹنگ کے حوالے سے بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ افغانستان کے نئے حالات میں بھارت کی اپنی جگہ بنانے کی کوشش ہے۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر اور 'دی ہارڈ نیوز‘ کے مدیر سنجے کپور کہتے ہیں کہ بھارت جانتا ہے کہ وہ ”اس معاملے پر الگ تھلگ پڑ چکا ہے اور چاہتا ہے کہ اس معاملے میں اس کی بھی اپنی کچھ حیثیت برقرار رہے۔ افغانستان میں انسانی حقوق اور امداد کا مسئلہ ہے۔ تو اگر آپ کچھ کریں گے نہیں تو آپ کی حیثیت کیسے بڑھے گی۔“
سنجے کپور کا کہنا تھا کہ بھارت اس معاملے میں ایک طرح سے تنہا ہو چکا ہے اور اگر اب کچھ نہیں کیا گیا تو پھر، ''اس کی پوزیشن بہت کمزور ہو جائے گی۔