افريقی و ايشيائی مہاجرين واپس بھيج رہے ہيں، سربيا و مقدونيہ
19 نومبر 2015مقدونيہ ميں ايک سينئر پوليس اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ يہ فيصلہ ہمسایہ ملک سلووينيہ کی جانب سے صرف شامی، عراقی اور افغان پناہ گزينوں کو ملکی حدود سے گزرنے کی اجازت دينے کا ایک طرح سے تسلسل ہے۔ اس اہلکار کے مطابق ديگر تمام ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کو ’معاشی مقاصد کے ليے ہجرت کرنے والے‘ قرار ديتے ہوئے واپس بھيج ديا جائے گا۔ نيوز ايجنسی روئٹرز فوری طور اس بارے ميں سلوينين حکام سے وضاحت حاصل نہيں کر سکی۔
يہ امر اہم ہے کہ بلقان رياستوں سے گزر کر مغربی يورپی ممالک جرمنی اور سويڈن کا رخ کرنے والے اکثريتی پناہ گزينوں کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہی ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی ترجمان میلیٹا سُنجچ نے بتايا، ’’گزشتہ شام عالمی وقت کے مطابق چھ بجے سے سربيا نے شامی، عراق اور افغان تارکين وطن کے علاوہ تمام ديگر پناہ گزينوں کو واپس مقدونيہ بھيجنا شروع کر ديا ہے۔‘‘ ان کے بقول مقدونيہ نے بھی رات تين بجے سے اپنی سرحد بند کر رکھی ہے اور اسی سبب قريب ايک سو افراد پھنس کر رہ گئے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کی خاتون ترجمان نے مزيد بتايا کہ مقدونيہ کی جانب سے لائيبيريا، مراکش، پاکستان، سوڈان اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزينوں کو واپس بھيجا جا رہا ہے۔
مقدونيہ کی ايک غير سرکاری تنظيم LEGIS کی صدر جيسمين ريڈ زيپی نے تصديق کی کہ مقدونيہ بھی يونان سے ملنے والی اپنی سرحد پر صرف عراقی، شامی اور افغان مہاجرين کو ہی آگے بڑھنے کی اجازت دے رہا ہے۔
نيوز ايجنسی اے ايف پی کے ايک فوٹو گرافر نے بتايا ہے کہ اس تازہ پيش رفت کے نتيجے ميں مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر قريب دو سو سے تين سو پناہ گزين پھنس کر رہ گئے ہيں اور بظاہر وہ سرحد پار کرنے کی کوشش بھی نہيں کر رہے۔
شام، عراق، پاکستان، افغانستان اور شمالی افريقی ممالک سے لاکھوں تارکين وطن سمندری راستہ طے کرتے ہوئے ترکی سے يونان پہنچ چکے ہيں، جس کے بعد وہ بلقان ممالک سے گزرتے ہوئے مغربی يورپ کا رخ کرتے ہيں۔