افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار اہم ہے، کرزئی
6 دسمبر 2011بون کانفرنس کے ایک روز بعد منگل کو جرمن دارالحکومت برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کے ہمراہ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کو اس معاملے میں مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بدقسمتی سے پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور جب تک ہم ان پناہ گاہوں کے مسئلے کو حل نہیں کرتے اور مل جل کر اپنے مسائل کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور انتہاپسندی کے خاتمے کے اقدامات نہیں اٹھاتے، نہ تو افغانستان میں امن و استحکام آ سکتا ہے اور نہ پاکستان میں۔‘‘
واشنگٹن اور کابل کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جبکہ اسلام آباد اس الزام سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے افغانستان میں امریکی ناکامیوں کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
چھبیس نومبر کو پاکستان کی ایک سرحدی چوکی پر نیٹو کے مبینہ حملے میں چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے بطور احتجاج بون کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اسی پریس کانفرنس کے دوران افغان صدر نے منگل کی صبح وسطی کابل میں ایک شیعہ مزار پر ہونے والے خودکش بم حملے کی مذمت کی۔ اس حملے میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
قبل ازیں جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور افغان صدر کرزئی نے دونوں ملکوں کے درمیان ایک شراکت کے معاہدے کے حوالے سے بات چیت کی، جس کے تحت جرمنی افغان پولیس اور کان کنی کے شعبے کے انجنیئروں کو تربیت فراہم کرے گا۔
جرمن چانسلر نے کہا، ’ابھی افغان فریق کے ساتھ اس معاہدے کے بارے میں مزید تبادلہ خیال ہونا باقی ہے، تاہم میرا خیال ہے کہ اس میں سکیورٹی فورسز کی مزید تربیت کے علاوہ پیشہ وارانہ تربیت کا بھی بڑا کردار ہو گا‘۔
انگیلا میرکل نے کہا کہ اس سے بیروزگار نوجوانوں کو ملازمتوں کے مواقع ملیں گے اور افغانستان کے قدرتی وسائل کو منصفانہ انداز میں استعمال کیا جا سکے گا۔
انہوں نے کہا، ’’جرمنی کو اپنی کان کنی کی تربیت گاہوں کے باعث اس شعبے میں وسیع تجربہ حاصل ہے ۔‘‘
انگیلا میرکل نے افغان صدر پر ملک میں بدعنوانی کے خاتمے اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے بھی زور دیا۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ