افغان امن پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے بھی اہم
11 جنوری 2016پاکستان، چین اور افغانستان کے اعلیٰ نمائندوں کی ایک سہ فریقی کانفرنس کا انعقاد آج پیر گیارہ جنوری کو اسلام آباد میں ہوا، جس میں تینوں ممالک کے مندوبین نے افغانستان میں طالبان کے ساتھ قیام امن کی کوششوں کو جاری رکھنے، انسداد دہشت گردی اور پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر اتفاق کیا۔
افغانستان میں امن کوششیں
افغانستان میں جاری امن عمل کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا، ’’امن عمل سے ہماری خواہشات کے مطابق نتائج حاصل ہوں گے، پاکستان انسداد دہشت گردی میں افغانستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا، اندرون ملک جاری فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘ سے مثبت نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔‘‘ سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور چین افغانستان میں قیام امن کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کریں گے۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں اس امن عمل کی کامیابی کے لیے چین بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ بیجنگ کا اقتصادی مفاد بھی اس خطے میں امن ہی سے منسلک ہے۔ اس سہ فریقی کانفرنس میں اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن ژاؤ لی نے کہا، ’’چین اس امن عمل کی کامیابی کے لیے فعال کردار ادا کرتا رہے گا تاکہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے۔‘‘
پاکستانی دارالحکومت میں اس سہ فریقی مکالمت میں شریک ایک شخصیت نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پیر کی رات بتایا کہ چینی سفارت خانے کے نائب سربراہ نے واضح طور پر کہا کہ ’افغانستان میں امن کے بغیرعلاقائی تعاون ممکن نہیں‘۔
اس حوالے سے اجلاس میں شریک ’نیشنل اسلامک فرنٹ آف افغانستان‘ کے نائب سربراہ سید حامد گیلانی نے کہا کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ ختم کریں، ان مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں نہ لگائی جائیں اور اصلاحات کا سلسلہ بھی جاری رکھا جائے۔
اسی اجلاس میں شریک پاک چین تعلقات کے موضوع پر لکھی گئی کتاب ’دی پاکستان چائنہ ایکسِز‘ کے مصنف اینڈریو سمال نے کہا، ’’روایتی حریف ہونے کے باوجود امریکا اور چین افغانستان میں قیام امن کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔‘‘
اکنامک کوریڈور
چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستانی پارلیمان کی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس کوریڈور کے حوالے سے کہا، ’’اس راہداری کا مقصد نئے اقتصادی مواقع، ثقافت کا فروغ اور دوطرفہ روابط کو بڑھانا ہے۔‘‘ اجلاس میں چین کی سِنگ ہوا یونیورسٹی کے پروفیسر لی ژی گوآنگ نے کہا، ’’اس راہداری کےساتھ ساتھ ایک نئے ثقافتی خطے کا وجود میں آنا نئے اقتصادی مواقع بھی پیدا کرے گا اور ایک نئے ’سِلک روڈ کلچرل زون‘ کا سبب بھی بنے گا۔‘‘
اس سہ فریقی اجلاس میں شریک ایک شخصیت نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں یہ بھی کہا کہ پاک چائنہ کوریڈور سے متعلق امریکا کو کچھ خدشات ہیں۔ ’’امریکا کو خدشہ ہے کہ چینی صوبے سنکیانگ میں شدت پسند تنظیمیں اور افغانستان میں داعش کی موجودگی اس راہداری کی کامیابی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ تاہم چین نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ امن و امان کی صورتحال خراب نہیں ہونے دے گا۔‘‘