افغان انٹیلیجنس کے دفتر پر طالبان کا حملہ، 18 ہلاک
4 ستمبر 2014نائب صوبائی گورنر محمد علی احمدی کے مطابق حملہ آور غزنی شہر میں قائم ملکی خفیہ ادارے ’ این ڈی ایس‘ کی عمارت کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ اُن کے بقول مرنے والوں میں نیٹو کے زیر انتظام آئی سیف دستوں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے غزنی کے صوبائی گورنر مُوسٰی خان اکبر زادہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملہ 19 عسکریت پسندوں کی ایک ٹیم کی طرف سے کیا گیا۔ حملہ آوروں نے فوری ردعمل دکھانے والی پولیس کی ٹیم کو بھی نشانہ بنایا۔ اس پولیس کا دفتر بھی اسی کمپاؤنڈ میں موجود تھا جسے حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خودکش ٹرک بم دھماکے کے بعد حملہ آوروں کا افغان فورسز کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
اکبر زادہ کے بقول، ’’بم دھماکے اس قدر شدید تھے کہ ارد گرد کی عمارتوں کی چھتیں گرنے کھڑکیاں ٹوٹنے کے سبب بہت سے سویلین زخمی ہوئے۔‘‘ اس حملے کے بعد زخمیوں کو غزنی کے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ناکافی سہولیات کے باعث مشکلات پیش آئیں۔
طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غزنی میں کیے جانے والے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں درجنوں افغان فوجی ہلاک ہوئے۔ مجاہد کے مطابق، ’’یہ ہماری فتح اور ہمارے دشمنوں کی شکست ہے جنہیں یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ کیسے ہمارے جنگجو دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑیوں کے ساتھ بڑی تعداد میں انٹیلیجنس ایجنسی کے دفتر پہنچے۔‘‘ طالبان کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ نیٹو فورسز فوری طور پر افغانستان چھوڑ دیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان کی طرف سے یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔ چند روز قبل ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ (NDS)کو ملک کے مشرقی شہر جلال آباد میں بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ انٹیلیجنس ایجنسی ملک میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہے۔
افغان حکام ماضی میں دارالحکومت کابل اور اس کے قریب کیے جانے والے ایسے ٹرک بم دھماکوں کی ذمہ داری حقانی نیٹ ورک پر عائد کرتے رہے ہیں۔