افغان بحران میں تعطل دور کرنے کی نئی کوششیں
25 مارچ 2011بدھ کے روز امریکہ کی سنچری فاؤنڈیشن نے 'افغانستان: امن مصالحت' کے نام سے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس رپورٹ اور تجاویز کی تیاری کے لیے امریکی حکام سے بڑے پیمانے پر صلاح ومشورے کیے ہیں۔
افغانستان کے بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے اس رپورٹ میں کئی تجاویز دی گئی ہیں۔ اہم ترین تجاویز میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو افغانوں اور افغانستان میں موجود غیر ملکی طاقتوں کے درمیان مصالحتی مذاکرات کا نگران مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی اور یہ رپورٹ تیار کرنے والی ٹاسک فورس کے ایک رکن جِم ڈوبنز نے مذاکرات کی نگرانی کے لیے تین ممکنہ نام پیش کیے ہیں۔ ان میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان، افغانستان کے لیے سابق امریکی نمائندے لخدار براہیمی اور افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی فنڈ کے موجودہ سربراہ سٹافان دے مستورا کے نام شامل ہیں۔
مستورا رائے عامہ ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک 'مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ' میں منگل 22 مارچ کو خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ وہ رواں برس کے دوران کابل میں امریکہ اور افغانستان کے پڑوسی ملکوں کے سفارت کاروں کے ساتھ کئی مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں۔ انہوں نے ان کوششوں کو سلک روڈ یعنی شاہراہ ریشم کا نام دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ رواں برس کے اختتام تک استنبول میں ایک کانفرنس منعقد ہوسکتی ہے، جس میں افغانستان کے استحکام کے حوالے سے ایک معاہدہ عمل میں آ سکتا ہے۔
دوسری طرف افغان صدر حامد کرزئی نے سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کی زیرسربراہی ایک اعلیٰ امن کونسل قائم کی ہے، جس کا کام ملک بھر میں قبائلی سرداروں کے علاوہ افغانستان اور پاکستان میں موجود طالبان سے امن کے قیام کے لیے رابطے کرنا ہے۔
افغانستان میں استحکام کے لیے تجاویز تیار کرنے والی 15 رکنی سنچری فنڈ ٹاسک فورس نے افغانستان اور پاکستان کے کئی ایک سفر بھی کیے ہیں۔ اس ٹاسک فورس کی طرف سے تہران جانے کی بھی درخواست کی گئی، جس پر ایران نے مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تاہم سنچری فنڈ کی خارجہ پالیسی کے ڈائریکٹر جیفری لارینٹی کے بقول لخدار براہیمی نے اس حوالے سے سابق ایرانی وزیرخارجہ منوچہر متقی سے ان کے دور وزارت میں ایران سے باہر کئی ملاقاتیں کی تھیں۔
مستورا اور سنچری فنڈ ٹاسک فورس اس بات پر متفق ہیں کہ "یہی وقت ہے کہ ایک سیاسی حل کے لیے مصالحتی کوششوں کا آغاز کر دیا جائے"، اس سے قبل کہ امریکہ رواں برس کے دوران افغانستان میں اپنی جنگی طاقت میں کمی کا آغاز کر دے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی