افغان تارکين وطن کی ملک بدری پر جرمنی ميں اتنی مخالفت کيوں؟
24 جنوری 2018جرمن شہر ڈوسلڈورف سے انيس افغان تارکين وطن کو تيئس جنوری کے روز ملک بدر کر کے واپس ان کے ملک افغانستان روانہ کر ديا گيا۔ اس موقع پر ڈوسلڈورف کے بين الاقوامی ہوائی اڈے پر ايک بڑی تعداد ميں مظاہرين جمع ہوئے، جنہوں نے افغانستان ميں امن و امان کی ابتر صورت حال کے باوجود تارکين وطن کی وطن واپسی کے خلاف احتجاج کيا۔ احتجاج ميں شريک ايک گيارہ سالہ افغان بچی حديثہ بخشی نے کہا، ’’افغانستان ميں ہر طرف بمباری اور جنگ و جدل جاری ہے۔ وہاں بہت سے لوگ ہلاک ہو رہے ہيں۔ لوگوں کو وہاں واپس نہيں بھيجا جانا چاہيے۔‘‘
ايئر پورٹ پر مظاہرے ميں دو سو سے تين سو کے درميان افغان شہری شامل تھے۔ ’افغان آؤٹ کرائی‘ نامی سول سوسائٹی کی ايک مہم کے تحت مظاہرہ کرنے والے ان افراد کا کہنا تھا کہ پچھلے ايک سال کے دوران افغان مہاجرين کے گروپس کو واپس بھيجنے کا يہ نواں موقع تھا۔ دسمبر 2016 سن سے لے کر اب تک 155 افغان تارکين وطن کو جرمنی سے ملک بدر کيا جا چکا ہے۔ اس عمل کے ناقدين اسے بين الاقوامی قوانين کی خلاف ورزی قرار ديتے ہيں کيونکہ دہشت گرد گرہوں اسلامک اسٹيٹ اور طالبان کی مسلسل کارروائيوں کے سبب افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔
پچھلے ہفتے کے اختتام پر بھی کابل کے ايک ہوٹل پر طالبان عسکريت پسندوں کے حملے ميں تيس سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصديق ہو چکی ہے۔ انسانی حقوق کے ليے سرگرم گروپوں اور رضاکاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان ميں جن ’محفوظ علاقوں‘ کا ذکر وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر کرتے ہيں، وہ سرے سے ہيں ہی نہيں۔
ايسی اطلاعات بھی ہيں کہ جن افغان مہاجرين کو گزشتہ روز ملک بدر کيا گيا، وہ جرائم ميں ملوث تھے۔ قبل ازيں موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق بدھ کے روز 80 تارکين وطن کو ملک بدر کيا جانا تھا تاہم صرف انيس افغان شہریوں کو ہی ملک بدر کيا جا سکا۔