افغان تارکین وطن کی جبری واپسی کے خلاف فرینکفرٹ میں مظاہرہ
8 جنوری 2017یورپ میں جاری مہاجرین کے بحران کے دوران جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دینے والوں میں افغان تارکین وطن کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ صرف گزشتہ برس کے دوران ہی سوا لاکھ سے زائد افغان باشندوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ تب افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں خاندانوں کے بہت سے کم عمر نوجوانوں اور خواتین نے بھی بڑی تعداد میں جرمنی کا رخ کیا تھا۔
یورپ آنے والے سبھی مہاجرین کی دوبارہ جانچ پڑتال کا مطالبہ
ہفتہ سات جنوری کے روز افغان مہاجرین کی جرمنی سے ملک بدری کے خلاف فرینکفرٹ میں جو احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، اس میں قریب ایک ہزار افراد شریک ہوئے۔ فرینکفرٹ پولیس کے ترجمان کے مطابق یہ مظاہرہ پر امن طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔ ان مظاہرین میں افغان تارکین وطن کے علاوہ جرمن شہریوں نے بھی کافی تعداد میں شرکت کی۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایک جرمن خاتون سیاست دان جَینین وِسّلر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنا غیر ذمہ دارانہ عمل اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ مہینے چونتیس افغان تارکین وطن کو زبردستی ایک طیارے میں سوار کرا کے واپس افغانستان بھیج دیا گیا تھا۔ ایسے افغان تارکین وطن کو جبراﹰ واپس بھیجنے کے حوالے سے خود جرمن سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں میں بھی واضح اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
اس طرح کی ملک بدری کی مخالفت کرنے والوں کی رائے میں افغانستان کوئی محفوظ ملک نہیں ہے، اس لیے جرمنی سے افغان شہریوں کو ملک بدر نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم بعض جرمن حکام کی رائے میں افغانستان میں ناسازگار حالات کے باوجود کئی ملکی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں امن و امان کی صورت حال اتنی خراب نہیں کہ وہاں عام شہریوں کو جان کے خطرات ہوں۔
وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے افغان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ابھی حال ہی میں کہا تھا، ’’جرمنی میں سیاسی پناہ کے نظام کو فعال رکھنے کے لیے یہ ملک بدری ناگزیر ہے۔‘‘
گزشتہ برس اکتوبر میں کابل اور برلن کے حکام نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے ایک منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔ دسمبر میں اسی منصوبے کے تحت چونتیس افغان شہریوں کو جرمنی سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ جرمن حکام کے مطابق ان میں سے قریب ایک تہائی افغان مہاجرین ایسے تھے، جو جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے تھے۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں