افغان صدارتی انتخابات، امیدواروں کی جانب سے جیت کے متضاد دعوے
21 اگست 2009دوسری طرف حامد کرزئی کے مضبوط حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی جیت کے دعوے کئے ہیں۔ اس صورتحال میں افغان الیکشن کمیشن نےصدارتی امیدواروں سے کہا گیا ہے کہ وہ جیت کے دعوے کرنے سے گریز کریں اور نتائج کے سامنے آنے کا انتظار کریں۔
جمعرات کے روز ہونے والے صدارتی انتخابات کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک جانب تو کئی صدارتی امیدوار، کرزئی حکومت پر انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کررہے ہیں تو دوسری طرف صدر حامد کرزئی کے مضبوط حریف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی جانب سے انتخابات میں اکثریت کے دعوے بھی سامنے آنے لگے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے ابتدائی سرکاری نتائج کے منظر عام پر آنے میں دو ہفتے لگ سکتے ہیں۔ افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے ئانب سربراہ زکریا بارکزئی نے صدارتی امیدواروں سے صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے اور جیت کے حوالے سے کسی قسم کا دعویٰ نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم کسی انتخابی مہم کے مینیجر کی جانب سے کئے گئے کسی دعوے کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے اور انہیں صبر سے کام لینا چاہئے۔‘‘
صدرکرزئی کی صدارتی مہم کے مینیجر دین محمد نے بین الاقوامی خبررساں اداروں سے بات چیت کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ابتدائی نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ صدر حامد کرزئی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے اور انتخابات کے دوسرے دور کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ دین محمد نے کہا: ’’ابتدائی نتائج بتا رہے ہیں کہ صدر کرزئی کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی ہے ہمیں انتخابات کے دوسرے دور سے نہیں گزرنا پڑے گا۔‘‘
اگر ان انتخابات میں کوئی امیدوار پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا تو رواں برس اکتوبر میں صدارتی انتخابات کا دوسرا دور ہو گا۔ جس میں صرف ان دو امیدوراوں کے مابین مقابلہ ہو گا پہلے مرحلے میں پہلے دو نمبروں پرآئیں گے۔
دین محمد نے دعویٰ کیا کہ ان کا یہ اندازہ ان 29 ہزار مبصرین کی رائے پر مبنی ہے جو کرزئی کی صدارتی مہم کا حصہ تھے اور جنہیں مختلف پولنگ اسٹیشنوں میں انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لئے تعینات کیا گیا تھا۔
دوسری جانب صدر حامد کرزئی کے مضبوط صدارتی حریف اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ترجمان فضل سنگچاراکی نے دین محمد کے دعوؤں کو رد کرتے ہوئے ڈاکٹر عبداللہ کی جیت کا اعلان کر دیا ہے۔ سنگچاراکی کے مطابق :’’ یہ دعوے غلط ہیں کیونکہ عبداللہ برتری حاصل کئے ہوئے ہیں۔ عبداللہ کی برتری اتنی واضح ہے کہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عاطف بلوچ