افغان طالبان کا امریکا نواز ملیشیا پر بم حملہ، تیرہ ہلاکتیں
27 مئی 2017خوست سے ہفتہ ستائیس مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکا کی قیادت میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں کابل میں طالبان انتظامیہ کے اقتدار سے علیحدہ کیے جانے کے پندرہ برس سے بھی زائد عرصے بعد اس وقت افغانستان میں طالبان جنگجو ایک بار پھر اپنی مسلح کارروائیوں میں شدت لا چکے ہیں۔
انہی کارروائیوں کے دوران یہ عسکریت پسند اپنے حملوں میں وہ تیزی بھی لا چکے ہیں، جو ہر سال موسم بہار میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ایسے حملوں کے دوران خوست میں ایک امریکا نواز افغان ملیشیا پر آج ہفتے کے روز کیا جانے والا حملہ رمضان کے اسلامی مہینے کے آغاز کے پر نہ صرف طالبان کا پہلا بڑا خونریز حملہ ہے بلکہ اس میں عسکریت پسندوں نے ایک بار پھر اپنی مخالف ان عسکری قوتوں کو نشانہ بنایا، جنہیں امریکا یا اس کے اتحادی مغربی ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔
افغانستان کے حالات ابھی اور خراب ہوں گے، امریکی انٹیلیجنس چیف
قندوز پر ایک بار پھر طالبان کے قبضے کا شدید خطرہ
خونریز خانہ جنگی کے دو عشروں بعد حکمت یار کی کابل واپسی
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ یہ حملہ جس افغان ملیشیا پر کیا گیا، وہ صوبائی پولیس کے سربراہ فیض اللہ غیرت کے مطابق خوست کی صوبائی فورس کہلاتی ہے۔ فیض اللہ غیرت نے صحافیوں کو بتایا کہ مرنے والوں میں عام شہری اور خوست کی صوبائی فورس کے پی ایف کے ارکان بھی شامل ہیں۔
اس افغان ملیشیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے ہتھیار اور مالی وسائل امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں۔ کابل میں افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش کے بقول یہ حملہ ایک خود کش کار بم حملہ تھا، جس میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہوئے۔ قبل ازیں افغان وزارت داخلہ نے اس حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 18 بتائی تھی۔
خوست پولیس کے سربراہ فیض اللہ غیرت نے اے ایف پی کو بتایا، ’’طالبان کے ایک خود کش حملہ آور نے یہ کار بم دھماکا اس وقت کیا، جب صبح سویرے خوست پروونشل فورس کے ارکان اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔‘‘
طالبان نے ’آپریشن منصوری‘ کا آغاز کر دیا
افغان طالبان کا حملہ: بیسیوں فوجیوں کی تدفین، دو جنرل برطرف
کہا جاتا ہے کہ KPF نامی اس افغان ملیشیا کے ارکان کی تعداد چار ہزار کے قریب ہے اور اس فورس کے جنگجو کابل حکومت کی حامی اور ایک امریکا نواز عسکری طاقت کے طور پر طالبان کے خلاف جنگی کارروائیاں کرتے ہیں۔
خوست کے افغان صوبے کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں اور اس صوبائی ملیشیا پر، جو باقاعدہ طور پر افغان سکیورٹی فورسز کا حصہ نہیں ہے، اکثر یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے زیر حراست افراد پر تشدد کرنے کے علاوہ ان کی ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بہت سے واقعات میں بھی ملوث ہے۔
ہفتے کے روز کیے گئے حملے سے قبل افغان طالبان نے اسی ہفتے شاہ ولی کوٹ اور میوند کے اضلاع میں بھی افغان فوج کے اڈوں پر متعدد حملے کیے تھے، جن میں مجموعی طور پر بیسیوں افغان فوجی مارے گئے تھے۔