افغان عوام کے لئے امید کی نئی کرن
7 اکتوبر 2010اس کونسل کی افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں کرزئی نے طالبان عناصر کو امن مذاکرات میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی سلامتی کے پیش نظر طالبان کو چاہئے کہ وہ اس قومی پیش قدمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اُدھر طالبان عناصر بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ اُس وقت تک حکومت کے ساتھ بات چیت میں شامل نہیں ہوں گے جب تک کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیں واپس نہیں جاتیں۔ افغانستان میں نئی امن کونسل کا افتتاح ملک میں امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کے نو سال مکمل ہونے کے موقع پر عمل میں آ رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کابل حکومت اور طالبان باغیوں کے مابین تعلقات کی بحالی کے ذریعے تنازعات کا سیاسی حل ہی دراصل افغانستان سے انخلاء کی امریکی حکمت عملی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ جمعرات کو امن کونسل کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کابل میں سخت سکیورٹی انتظامات کے تحت صدارتی محل کے اندر افغان صدر نے کہا: ’’ہر صوبے، تحصیل اور گاؤں کے باشندوں کو اس کونسل سے گہری توقعات وابستہ ہیں۔‘‘
حامد کرزئی نے تاہم اپنی تقریر میں اس امرکا ذکر نہیں کیا کہ یہ تقریب ایک نہایت حساس دن منعقد ہو رہی ہے، یعنی آج سے افغانستان پر امریکہ کے حملے اور اس جنگ کا دسواں سال شروع ہو رہا ہے۔ نو سال بعد امریکی فوج اس جنگ میں ریکارڈ تعداد میں اپنے فوجیوں سے محروم ہو چکی ہے، اس دوران لاتعداد افغان شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں اور مبصرین کے مطابق طالبان پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔ اس امن کونسل کے قیام کا فیصلہ دراصل گزشتہ جون میں افغانستان میں ہونے والی ملک گیر کانفرنس میں کیا گیا تھا۔ ماہرین نے پہلے ہی اس اجلاس کی ناکامی سے خبردار کر دیا ہے کیونکہ ان کے بقول اس کے شرکاء کی ایک بڑی تعداد جنگی رہنماؤں اور ملیشیا لیڈروں پر مشتمل ہے۔ ان اکابرین کو مخاطب کرتے ہوئے حامد کرزئی نے کہا: ’’اس اجلاس میں میں آپ سب کا استقبال اور ان مذاکرات کی کامیابی کی تمنا کرتا ہوں۔ میری دعا ہے کہ ہماری خواہشات پوری ہوں اور ہمارا ملک مستحکم اور پُر امن ہو جائے۔‘‘
صدر کرزئی نے اپوزیشن لیڈروں کے بارے میں کہا: ’’چاہے وہ طالبان ہوں یا کوئی اور، جو کوئی بھی ملک کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے، ہم اس سے کہتے ہیں کہ وہ آگے آئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور ملک میں امن کے قیام کی کوششوں میں ہمارے ساتھ تعاون کا مظاہرہ کریں۔‘‘
تاہم افغانستان میں خاص طور سے شہری اکابرین یا خواص میں، جو گزشتہ نو سال سے زیادہ تر آسودہ اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، یہ خوف پایا جاتا ہے کہ طالبان کو کسی بھی شکل میں طاقت اور اقتدار میں شریک کرنے سے اُن کو جو آزادی حاصل ہوئی ہے، وہ خطرے میں پڑ جائے گی۔ ان میں خواتین بھی شامل ہیں۔ اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک افغان قانون ساز اور حقوق نسواں کی علمبردار فوزیہ کوفی نے کہا: ’’مجھے سب سے زیادہ فکر یہ ہے کہ اگر یہ ملک دوبارہ سے طالبان کے تاریک عہد میں چلا گیا تو خواتین کا کیا ہوگا؟ شاید طالبان عناصر کے اندر کوئی تبدیلی آئے۔ تاہم میں یہ ہر گز نہیں چاہتی کہ ایسے طالبان جن کے پاس خواتین کے لئے کوئی احترام و عزت نہیں ہے، اُن سے حکومت مذاکرات کرے۔‘‘
ادھر ملک میں امریکہ کی قیادت میں جنگ کے نو سال مکمل ہونے کے موقع پر طالبان عناصر نے اپنے ایک بیان میں ملک کے 75 فیصد حصے پر اپنے قبضے کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی جارحیت اور قبضے کے خلاف جہاد اور مزاحمت اتنے ہی شدید اور پرزور ہیں جتنے ماضی میں تھے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک