1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان عوامی زندگی میں کوئی خاتون محفوظ نہیں، ایمنسٹی

مقبول ملک7 اپریل 2015

افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم خاتون کارکنوں کو اپنے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور خطرات کا سامنا ہے۔ ان خواتین کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں اور ان پر جنسی اور قاتلانہ حملے تک بھی کیے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1F3Nb
تصویر: BEHROUZ MEHRI/AFP/Getty Images

یہ بات آج منگل کے روز افغان دارالحکومت کابل میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے بتائی گئی۔ ایمنسٹی کے مطابق یہ بات بھی شدید تشویش کا باعث ہے کہ افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے ایسی خاتون کارکنوں کو لاحق خطرات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل سلیل شیٹی نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی خاتون کارکنوں اور پیشہ ور شخصیات کو نہ صرف طالبان عسکریت پسندوں بلکہ جنگی رہنماؤں اور حکومتی اہلکاروں تک کی طرف سے بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی انسانی حقوق کے لیے سرگرم ان خواتین کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور انہیں جنسی اور قاتلانہ حملوں تک کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سلیل شیٹی نے کہا، ’’انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ان خواتین نے عوامی زندگی کے ہر شعبے میں گزشتہ 14 برسوں کے دوران بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان میں سے کئی کو اس کی قیمت اپنی جان کی صورت میں چکانا پڑی۔‘‘

Afghanistan Lynchmord an Frau Beerdigung
اسلامی علوم کی گریجویٹ فرخندہ نامی خاتون پر قرآن کی بے حرمتی کا غلط الزام لگایا گیا تھاتصویر: Reuters/M. Ismail

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل نے شکایت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بات اشتعال انگیز اور قابل مذمت ہے کہ افغان حکام نے ان خواتین کو اپنا تحفظ کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا ہے اور آج ایسی کارکنوں کو درپیش حالات پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔‘‘

سلیل شیٹی نے اس حوالے سے ایمنسٹی کی ایک تازہ رپورٹ کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں یہ ’مسلسل رجحان پایا جاتا ہے کہ حکام خواتین کو ملنے والی دھمکیوں کو یا تو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر ان کی شدت اور سنجیدگی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا، ’’اب تک ایسے واقعات کی بہت کم باقاعدہ چھان بین دیکھنے میں آئی ہے۔ ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی اور انہیں سزائیں سنائے جانے کے واقعات تو اور بھی ناپید ہیں۔ کئی واقعات میں تو حکام کو اپنے خلاف تشدد یا حملوں کی اطلاع دینے والی خواتین کو محض ان کی حصول انصاف کی خواہش کی وجہ سے مزید خطرات اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

ایمنسٹی کی اس رپورٹ کے مطابق خود افغان پولیس کی خاتون اہلکاروں کو بھی خطرات کا سامنا ہے، ’’افغان پولیس میں شامل خواتین کو بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ایسے واقعات کے ذمے دار اہلکاروں کو تقریباﹰ ہمیشہ ہی کوئی سزا نہیں دی جاتی۔‘‘

ایمنسٹی کی طرف سے یہ رپورٹ اُس واقعے کے تین ہفتے سے بھی کم وقت کے بعد جاری کی گئی ہے، جس میں ملکی دارالحکومت کابل میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک 27 سالہ خاتون کو قتل کر کے اس کی لاش کو جلا دیا تھا۔ اسلامی علوم کی گریجویٹ فرخندہ نامی اس خاتون پر قرآن کی بے حرمتی کا غلط الزام لگایا گیا تھا اور کابل کی ایک مشہور مسجد کے باہر اِس خوفناک جرم کا ارتکاب دن کی روشنی میں پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں کیا گیا تھا۔

ایمنسٹی کے مطابق، ’’افغانستان کی عوامی زندگی میں کوئی خاتون محفوظ نہیں ہے۔ نہ انسانی حقوق کی کارکنان، نہ سیاستدان، نہ وکلاء، نہ صحافی اور نہ ہی خاتون اساتذہ۔‘‘