1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان فوج نے القاعدہ کے اہم کمانڈر کو ہلاک کر دیا

عابد حسین
19 فروری 2017

افغانستان میں طالبان کے ساتھ ساتھ داعش اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند فعال ہیں۔ ان تنظیموں کے جنگجُو مختلف صوبوں میں عسکری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2XrLW
Afghanistan Kabul Selbstmordanschlag Polizisten
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gul

افغان فوج نے دہشت گردی کے بین الاقوامی نیٹ ورک القاعدہ کے جس اہم کمانڈر کو ہلاک کیا ہے، اس کا نام سیف اللہ اختر بتایا گیا ہے۔ اس کمانڈر کی ہلاکت کا آپریشن وسطی افغان صوبے غزنی کے ضلع ناوا میں کیا گیا تھا۔ القاعدہ کے اس کمانڈر کی ہلاکت رواں برس نو جنوری کو ہوئی تھی۔

افغان حکام نے سیف اللہ اختر کی نو جنوری کو ہونے والی ہلاکت کی باقاعدہ تحقیقات کرنے کے بعد تصدیقی بیان آج اتوار، انیس جنوری کو جاری کیا ہے۔ افغان وزارت دفاع کے مطابق اِس آپریشن کی نگرانی نیشنل ڈائریکٹوریٹ برائے سکیورٹی کا محکمہٴ کر رہا تھا۔ اسی ادارے نے بعد ازاں اختر کی ہلاکت کی تصدیق مختلف مقامی ذرائع سے کی تھی۔

بتایا جاتا ہے کہ سیف اللہ اختر مقامی سطح پر القاعدہ کا ایک اہم کمانڈر تصور کیا جاتا تھا اور اُس نے پاکستانی جنگجُوؤں پر مشتمل دستے کی اُس وقت قیادت کی تھی جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم تھی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت سن 2001 امریکی فوج کشی کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ طالبان کابل حکومت کے چھِن جانے کے بعد سے پرتشدد سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Afghanistan Tora Bora Gefangene Taliban Kämpfer
ایک دہائی قبل افغانستان میں القاعدہ کے حامی عسکریت پسندوں کی تعداد خاصی زیادہ تھیتصویر: Getty Images/C. Hondros

سیف اللہ اختر کی ہلاکت کے حوالے سے جاری ہونے والے افغان حکومت کے بیان میں بتایا گیا کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد القاعدہ کا رکن سیف اللہ اختر تقریباً تیس ہزار عسکریت پسندوں کو لے کر وسطی ایشیائی ریاستوں کی جانب چلا گیا تھا اور وہ وہاں اسلامی بیناد پرستی کی مسلح تحریک مختلف ریاستوں کے علاقوں میں جاری رکھنے کی کوششیں کرتا رہا لیکن اسے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

وسطی ایشیائی ریاستوں کی حکومتوں کی سخت تادیبی و سلامتی کی کارروائیوں کے بعد اُسے اپنے لشکریوں سمیت واپس افغانستان آنا پڑا اور اس دوران اُس کے جنگجُو وقت کے ساتھ ساتھ بکھرتے چلے گئے۔ اُسی دور میں اختر اور القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظوہری کابل کے قریبی علاقوں باگرام اور ریشکور میں ایک اہم دہشت گردی کے مرکز کی نگرانی بھی کرتے تھے۔

یہ امر اہم ہے کہ عسکریت پسند کمانڈر سیف اللہ اختر کو پاکستان میں دو مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا اور ہر مرتبہ رہائی دینے کے بعد اُسے افغانستان میں واپس دھکیل دیا جاتا تھا۔ اختر انجام کار غزنی میں ایک عسکری آپریشن میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔