افغانستان میں صحافی برادری خوف و ہراس کا شکار
27 جون 2021کابل میں رہائش پذیر اور کام کرنے والے ایک صحافی عزت اللہ مہر داد نے ای پی ڈی نامی خبر رساں ادارے سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا سے پہلے ہی کئی افغان صحافی شدید خوف اور گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ ان کے مطابق 2020ء کے اواخر سے اب تک مسلح افراد اور شدت پسند تنظیمیں صحافیوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو قتل کر رہی ہیں۔ عزت اللہ مہر داد کا کہنا تھا،'' میں بہت خوفزدہ ہوں کہ افغانستان سے بین الاقوامی فوج کے انخلا کے بعد ان حملوں میں مزید اضافہ ہو گا۔‘‘
افغانستان: میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کا قتل
مہر داد کابل میں متعدد بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے لیے بطور صحافی کام کرتے ہیں۔ ان میں 'فورن پالیسی، وائس، اور دا ڈپلومیٹ‘ بھی شامل ہیں۔ یہ کسی حد تک صحافیوں کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔
مہر داد کے بقول، ''امریکی اور نیٹو افواج بیس سال تک یہاں تعینات رہی ہیں۔ یکم مئی سے ان کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوا اور 11 ستمبر کو انخلا مکمل ہو جائے گا۔ ہم ہنوز ان افواج کی یہاں موجودگی محسوس کر رہے ہیں۔‘‘
افغانستان سےغیر ملکی افواج کا انخلا:جہادی سراُٹھا سکتے ہیں، ماہرین کا انتباہ
صحافی کا قتل، افغان خواتین مدد کی خواہاں
مہر داد کے خدشات
22 سالہ صحافی مہر داد کو ڈر ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں آ جائیں گے۔ انتہا پسندوں نے ابھی سے یکے بعد دیگرے افغان اضلاع پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ مہر داد کہتے ہیں،'' اگر طالبان کی کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں تو میں اُس طرح اپنا کام جاری نہیں رکھ سکوں گا، جس طرح اب تک کرتا آیا ہوں۔‘‘
افغانستان میں میڈیا منظر نامے اور صحافت کے شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے مستقبل میں کیسی صورتحال سامنے آئے گی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا تاہم ابھی سے بہت سی خواتین اور مرد صحافیوں نے ملک چھوڑنے کے بارے میں سوچ بچار شروع کر دی ہے تاہم مہر داد اپنا ملک نہیں چھوڑنا چاہتے۔ وہ کہتے ہیں،'' افغان معاشرے کو آزاد و خود مختار صحافیوں کی ضرورت ہے۔‘‘
افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ کہیں اور منتقل ہو چکا، بلنکن
مقامی صحافی سب سے زیادہ خطرے میں
صحافیوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے سرگرم تنظیم'' رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘‘ کے مطابق افغانستان کا شمار صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ آزادی صحافت کی عالمی سطح پر درجہ بندی میں 180 ممالک میں افغانستان کا 122 واں نمبر ہے۔ مہر داد کے مطابق ہندو کش کی اس ریاست میں ان مرد اور خواتین صحافیوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے،جو لوکل یا مقامی میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کی نظروں میں سب سے زیادہ یہی صحافی رہتے ہیں اور انتہا پسند مسلح گروپ انہی کو سب سے زیادہ اپنی دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ مہر داد کے بقول،'' کیونکہ میں انٹرنیشنل میڈیا کے لیے کام کرتا ہوں اس لیے میں نسبتاً محفوظ ہوں۔‘‘
افغانستان کا اُجڑا شہر لشکر گاہ بے گھر افراد کا سہارا، ماہرین آثار قدیمہ کو تشویش
امریکی انخلا اور افغانستان میں مزید قتل و غارت گری کے خدشات
کم تنخواہیں ایک اور مسئلہ
مہر داد کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مقامی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو بہت کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ یہ ایک اضافی مسئلہ ہے۔ لوکل میڈیا اپنے مرد اور خواتین رپورٹروں اور ایڈیٹرز کو مناسب تنخواہیں دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ مہر داد کے بقول،'' اکثر دیہی علاقوں میں صحافی بغیر کسی مالی معاوضے کے رضا کارانہ طور پر اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔‘‘
مہر داد کابل حکومت پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں،'' تنقیدی سوالات اٹھانے والے صحافیوں کو حکومت سرے سے نظر انداز یا رد کرتی ہے۔‘‘
(ک م/ ع ا) ای پی ڈی