افغان معیشت ایک فیصلہ کُن موڑ پر
21 مارچ 2014گزشتہ دہائی کے دوران غیر معمولی ترقی کرنے کے بعد افغانستان کی معیشت ایک ایسے وقت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آ رہی ہے جب نیٹو فورسز ملک سے انخلاء کی تیاریاں کر رہی ہیں۔
کوئی بارہ برس پہلے کی بات ہے، افغانستان کی معیشت مکمل طور پر تباہ تھی۔ یہ ملک دو دہائیوں تک جنگ اور سیاسی لڑائی جھگڑوں کی لائی ہوئی تباہی سے دو چار رہنے کے بعد انتہا پسند طالبان عناصر کی زد میں تھا۔ ایک انتہا پسند مذہبی گروپ جس نے 1996 ء میں حکومت قائم کر لی۔ تاہم گیارہ ستمبر 2001 ء کو نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے جنوبی ایشیائی ملک افغانستان پر شدت سے اثر انداز ہوئے جس کا اندازہ بعد کے سالوں میں افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں سے ہوتا ہے۔
امریکی قیادت میں مغربی اتحادی فورسز کی طرف سے طالبان کا تختہ الٹے جانے کے بعد اور صدر حامد کرزئی کی زیر قیادت ایک نئی افغان انتظامیہ کی تشکیل کے بعد سے اس غریب ملک میں واضح معاشی ترقی دیکھنے میں آئی۔ تاہم اس ترقی کے پیچھے غیر ملکی ایڈ یا امداد کا بڑا ہاتھ ہے۔
غیر ملکی امداد پر انحصار
2002 ء سے غیر ملکوں نے افغانستان میں قومی تعمیر اور جمہوری اداروں کے قیام کے لیے بھاری پیمانے پر امدادی رقوم کا سلسلہ شروع کر دیا۔ امریکی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق محض واشنگٹن حکومت نے افغانستان کی تعمیر نوء کے لیے 100 بلین امریکی ڈالر غیر عسکری فنڈ میں دیے۔ امریکا کا ساتھ دیتے ہوئے دیگر مغربی ممالک نے بھی اربوں ڈالر کی امداد دی۔ مثال کے طور پر 2010 ء میں لگائے جانے والے اندازے کے مطابق، اُس سال افغانستان پہنچنے والے غیر ملکی سرمائے کا کُل حجم 15.7 بلین امریکی ڈالر تھا۔ عالمی بینک کے مطابق یہ رقم جی ڈی پی یا خام ملکی پیداوار کا 98 فیصد بنتی ہے۔
ماہرین کے مطابق جی ڈی پی میں اضافے کی وجہ سے 2002 ء سے 2012 ء کے درمیان افغانستان کی معیشت میں ترقی کی اوسط رفتار میں 9 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ دنیا بھر میں معاشی ترقی کی تیز ترین رفتار بتائی جاتی ہے۔ اس ترقی سے سب سے زیادہ فائدہ صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے متعلق شعبے کو پہنچا۔ تاہم ساتھ ہی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان غیر ملکی امداد پر سب سے زیادہ انحصار کرنے والا ملک بن چُکا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق افغان حکومت کے بجٹ اخراجات کا 60 فیصد غیر ملکی ایڈ سے حاصل کیا جاتا ہے اور اس ملک کا بہت بڑا تجارتی خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کا انحصار بھی غیر ملکی امداد پر ہے۔
فائدہ اور نقصان دونوں
بیرونی معاشی امداد کے باوجود جنوبی ایشیا کی اس ریاست کا شماراب بھی دنیا کے غریب ترین ملک میں ہوتا ہے۔ افغانستان کی سالانہ فی کس آمدنی اب بھی 680 امریکی ڈالر ہے۔ ملک کی کُل آبادی کا قریب نصف حصہ اب بھی مناسب رہائش گاہوں اور بجلی کی ترسیل سے محروم ہے اور اس ملک میں بے روزگاری کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ بیروزگاری رکھنے والے ملکوں کے مطابق ہے یعنی 25 فیصد تک ہے۔
باہمی سکیورٹی معاہدے BSA کی طرف سے بے یقینی
اس پس منظر میں بین الاقوامی فوجی دستے سال رواں کے اواخر تک افغانستان سے انخلاء کے لیے تیار ہیں تاہم افغان صدر حامد کرزئی امریکا کے ساتھ باہمی سکیورٹی کے حوالے سے BSA معاہدے پر دستخط سے ہچکچاتے ہوئے اس سے انکار کر رہے ہیں۔ اس معاہدے سے امریکا کو نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی، اِس ملک میں ممکنہ بغاوت کے خلاف آپریشن اور افغانستان کی لوکل فورسز کی تربیت کے لیے اپنے 10 ہزار فوجیوں کی افغانستان میں تعیناتی کا جواز مل جائے گا۔
یہ معاہدہ محض واشنگٹن اور کابل کے مابین تنازعے اور عوامی کشیدگی کا سبب نہیں بنا ہوا ہے بلکہ یہ اب افغان اور غیر ملکی سرمایہ کاروں میں پائی جانے والی غیر یقینی میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ ان سب کو اب یہ تشویش اور پریشانی لاحق ہے کہ موجودہ صورتحال کے اثرات ملک میں اب تک ہونے والی معاشی ترقی کی پائیداری پر کیسے مرتب ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی اور غیر ملکی فورسز کی طویل المیعاد تعیناتی ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ غیر ملکی حکومتیں افغان شہریوں اور فوج کے لیے اپنی امداد کو فراخ دلی سے جاری رکھیں گی۔
اُدھر عالمی بینک نے کہا ہے کہ افغانستان میں سیاسی اور سکیورٹی تبدیلیوں کے ضمن میں پائے جانے والے ابہام اور غیر یقینی صورتحال کے سبب اقتصادی ترقی کی شرح نمو پہلے ہی سست روی کا شکار ہو چُکی ہے۔ 2012 ء میں ترقی کی شرح نمو میں 14.4 فیصد توسیع دیکھنے میں آئی تھی جو گزشتہ برس گر کر 3.5 فیصد رہ گئی۔ رواں برس ملک میں ایک پائیدار سیاسی اور سکیورٹی تبدیلی رونما ہونے کے بعد ہی 2015 ء میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو میں اضافہ ہو سکے گا۔
افیون ایک اہم عنصر
افغانستان میں زراعت ایک اہم اقتصادی عنصر ہے۔ اس ملک کے قریب نصف خاندانوں کی آمدنی کا ذریعہ زراعت ہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران افغان کسانوں نے افیون یا پوست کی پیداوار میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ مغربی اقوام نے ایک دہائی تک اپنی کوشش جاری رکھی کہ افغان کسانوں کو اس بات کا قائل کریں کہ وہ پوست کی کاشت ترک کر کے کسی دوسری فصل کی کاشت کریں۔
اقوام متحدہ کے تازہ ترین سروے کے مطابق افیون کی کاشت 2012 ء کے مقابلے میں 36 فیصد اضافہ کے ساتھ گزشتہ سال ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے. بہت سے کسان افیون کی فصل اُگانے کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ یہ زیادہ منافع بخش ہے اور اس سے اُن کے بڑے خاندانوں کا گزر بسر بہتر طور پر ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس وقت ہیروئین کے نشے کے عادی افراد کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کر چُکی ہے جبکہ 1996 ء سے 2001 ء تک طالبان دور میں نشے کے عادی افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
کرپشن
افغانستان کی اقتصادی ترقی کو متاثر کرنے والا ایک اور اہم عنصر بدعنوانی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی 2013 ء کے کرپشن انڈکس کے مطابق شمالی کوریا اور صومالیہ کے ساتھ ساتھ افغانستان کا شمار دنیا کے تین کرپٹ ترین یا سب سے زیادہ بدعنوان ممالک میں ہوتا ہے۔ وسیع سطح پر یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ امریکا کی طرف سے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ یا تو ضایع ہو چُکا ہے یا بدعنوان سیاستدانوں اور حکام کی جیبوں میں چلا گیا ہے۔
سال رواں کے اوائل میں امریکی کانگریس نے 2014 ء کے مالی سال کے بجٹ میں کئی بلین امداد میں نصف کمی کے ساتھ اسے 1.12 بلین ڈالر کر دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ ایک واضح ثبوت تھا اس امر کا کہ امریکا بھی کرپشن کے خطرناک مرض میں مبتلا ملک افغانستان کے لیے مزید رقوم کی فراہمی کے عمل میں ہچکچاہٹ مسلسل بڑھ رہی ہے۔