افغان مہاجرين پاکستان، افغانستان اور اقوام متحدہ سے نالاں
5 اگست 2016مظاہرين کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کو افغانستان میں قيام امن تک پاکستان ہی ميں رہنے کی اجازت دی جائے۔ سابق افغان وزیر اعظم اور حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گل بدین حکمت یار کے صاحب زادے انجنیئر حبیب الرحمان نے اس موقع پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’جتنے لوگ افغانستان گئے ہیں وہ وہاں بے پناہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغان حکومت اور اقوام متحدہ کی جانب سے واپس جانے والے افغان شہريوں کے ليے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہيں۔‘‘ ان کا مزيد کہنا تھا کہ واپسی کے وقت رجسٹرڈ افغان مہاجرین سے کارڈ واپس لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں پھر سے پاکستان آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حبیب الرحمان کے بقول افغان حکومت نے واپسی کے ليے خپل وطن گُل وطن کا پروگرام شروع کر کے افغانوں کو در بدر کردیا ہے۔
افغانستان واپس جانے کے حوالے سے ایک عام تاثر يہ ہے کہ روزگار کی کمی اور بدامنی کی وجہ سے زیادہ تر لوگ یورپ اور عرب ممالک کا رُخ کر سکتے ہيں۔ اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے پشاور یونيورسٹی سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر عدنان سرور خان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’سر دست افغانوں کا یورپ کا رُخ کرنے کا کوئی امکان نہیں لیکن اگر تین ملین افغان شورش زدہ افغانستان جائیں گے، جہاں نہ تو بنيادی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی روزگار کے مواقع، تو کچھ عرصے بعد ان میں زیادہ تر نوجوان مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کا رُخ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد جنگجوؤں کے متحرک ہونے کا امکان اب بھی موجود ہے۔ ایسے میں ایک مرتبہ پھر سے تعلیم یافتہ لوگ یورپ اور امریکا کا رُخ کریں گے۔ سرور خان نے کہا کہ اگر امریکا اور پاکستان، افغانستان میں امن قائم کرنا چاہيں، تو یہ واپس جانے والے افغان وہاں کی سیکورٹی کے ليے سیکنڈ لائن بن سکتے ہيں۔‘‘
افغان مہاجرین کے مختلف کیمپوں کے سربراہان نے بھی جمعے کو منعقدہ مظاہرے میں شرکت کی۔ اس موقع پر کیمپ کمانڈر ارسلا خروٹی کا کہنا تھا، ’’افغان مہاجرین افغانستا ن جانے کے ليے تیار ہیں لیکن افغانستان میں ان کے ليے کچھ بھی نہیں ہے۔ پہلے پاکستان، افغانستان اور اقوام متحدہ کے سربراہان بیٹھ کر واپس جانے والے مہاجرین کے ليے پر امن شہروں میں رہائش کا بندوبست کریں اور اس کے بعد انہیں یہاں سے سہولت فراہم کر کے لے جايا جائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان حکومت مہاجرین کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لے رہی بلکہ کابل کی پالیسیوں کی ہی وجہ سے پاکستان ميں موجود افغان پناہ گزينوں کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خروٹی کے بقول ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر افغان مہاجرین کے مسائل کے حل کے ليے اقدامات اٹھائے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد خیبر پختونخوا میں قیام پذیر ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر شہری علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ پشاور میں افغان طالب علم عبد اللہ نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’یہاں پیدا ہوا اور یہاں پڑھ رہا ہوں۔ ميرا تو یہی ارادہ تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے بعد یورپ جاؤں گا لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔‘‘ اس طالب علم کا مزید کہنا تھا کہ اگر وہ پاکستان سے چلا گیا، تو بھی اعلیٰ تعلیم کے ليے برطانیہ یا کسی اور مغربی ملک جائے گا۔
زیادہ تر افغان نوجوان پاکستان میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ یہ لوگ يہاں ایسی سہولیات کے عادی ہوگئے ہیں جو افغانستان میں کم ہيں یا ہیں ہی نہيں۔ اسی وجہ سے ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کا افغانستان میں رہنا مشکل ہوگا۔ جب اس سلسلے میں افغان امور کے ماہر اور تجزیہ نگار شمس مومند سے ڈوئچے ویلے نے بات کی تو، ان کا کہنا تھا، ’’اب دنیا گلوبل وليج بن چکی ہے۔ پہلے یورپ جانے کے ليے محدود راستے ہوا کرتے تھے۔ اب ان راستوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ افغان شہريوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان سے یورپ جا چکی ہے اور آج پاکستان سے افغانستان جانے والے سہولیات کے عادی نوجوان شورش زدہ افغانستان میں زندگی گزارنے کے بجائے یورپ کا رخ کریں گے۔ اس کے ليے کئی راستے ہیں، ایجنٹ بھی موجود ہیں۔ یہ نوجوان تعلیمی سکالر شپ، کاروبار یا پھر سیاسی پناہ کی آڑ ميں یورپ یا امریکا جانے کی کوشیش کریں گے۔ جو تعداد پاکستان یا اقوام متحدہ بتا رہی ہے، اس سے زیادہ افغان پناہ گزين پاکستان میں رہائش پذیر ہیں اور اس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ یہ پاکستان سے نہیں بلکہ افغانستان جا کر یورپ جانے کیلئے راستہ نکالیں گے۔‘‘
پاکستان میں افغان مہاجر کیپموں کے مشران کا مطالبہ ہے کہ گرفتار افغانوں کو رہا کیا جائے جبکہ رجسٹرڈ افغانوں کے کارڈز میں اس وقت تک کی توسیع کی جائے جب تک افغانستان میں ان لوگوں کے ليے مناسب اور ساز گار ماحول میسر نہ کیا جائے۔