جنگی حالات مزید خراب ہوئے تو وہ ایک بوسیدہ سے فلیٹ میں چُھپنے پر مجبور ہو گیا۔ جس لیبیائی کے پاس وہ کام کرتا تھا، اس نے آخری چند ماہ کام تو کروایا لیکن پیسے نہیں دیے تھے۔ یہی کہتا تھا کہ یہاں حالات ٹھیک نہیں، کوئی بھی تم سے رقم چھین لے گا، وہ ایک ایک پائی پاکستان ٹرانسفر کر دے گا۔
بغاوت کا شور مزید بلند ہوا تو زیادہ تر غیرملکیوں نے جان بچانے کے لیے لیبیا سے فرار ہونا شروع کر دیا۔ زیادہ نقدی ساتھ نہیں لائی جا سکتی تھی اور لیبیا سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ بھی نہیں بچا تھا۔
پاکستانی سفارت خانہ اپنے شہریوں کو نکالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔ حبیب اللہ نے ایک دن مجھے کال کی کہ فلائیٹ مل نہیں رہی لیکن کشتیوں سے یورپ پہنچا جا سکتا ہے۔
میں نے اسے مشورہ دیا کہ لوگ ڈوب رہے ہیں، حادثات ہو جاتے ہیں، تمہاری بیوی اور چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، یہ رسک نہ لینا۔
اس کے چند دنوں بعد حبیب اللہ اور اس کے کئی دیگر پاکستانی ساتھیوں کو پاکستانی سفارت خانے سے کال موصول ہوئی کہ ایک جہاز کا بندوبست ہو گیا ہے۔ ان سب نے اپنا قیمتی سامان سوٹ کیسز میں بند کیا اور کئی دنوں کے انتظار کے بعد ایک جہاز پر سوار ہو گئے۔
پاکستان اُترے تو ان سب مزدوروں کے سوٹ کیس خالی تھی، جنہوں نے برسوں کی کمائی چھپا کر رکھی تھی، اس میں سے ایک دھیلا باقی نہیں بچا تھا۔ سب قیمتی سامان بھی غائب تھا۔ حبیب اللہ جیسے سینکڑوں افراد کی کمائی ہی نہیں بہتر مستقبل کے خواب بھی چوری ہو چکے تھے۔
انہیں شک تھا کہ سب کچھ پاکستانی عملے نے کیا ہے لیکن پاکستانی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ سامان لیبیا سے ہی ایسے آیا ہے۔ ان سب کو کس نے لوٹا آج تک نہیں پتہ چلا لیکن جو بات سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ لیبیا کے ہوائی اڈے پر ہی سب کے بیگ خالی کر لیے گئے تھے۔
حبیب اللہ کی جیب میں ایئرپورٹ سے گھر تک واپسی کا کرایہ تک نہیں تھا۔ وہ خشک آنکھیں لیے گھر پہنچا تو بال بکھرے ہوئے تھے۔ کئی دنوں سے پہنے ہوئے کپڑوں سے بو آ رہی تھی۔ افراتفری کے شکار ایک مسلمان ملک سے دوسرے مسلمان ملک تک واپس پہنچتے پہنچتے کسی کی کوئی ایک قیمتی چیز باقی نہیں بچی تھی۔ جو باقی بچا، وہ صرف افسردہ چہرے پر چھائیاں اور ہاتھوں پر چھالے تھے۔
ان دنوں پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ حکومت نے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ملک بدریاں پوری دنیا میں ہوتی ہیں لیکن اس کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں، کچھ اصول ہوتے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں موجود افغان مہاجرین کو اتنا کم وقت دیا گیا ہے کہ وہ اپنی املاک تک نہیں فروخت کر پا رہے۔ سرحد پر اتنی بدانتظامی ہے کہ خاندان کے خاندان بچوں اور خواتین سمیت تین تین دنوں سے وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہزاروں بچے، بوڑھے اور خواتین ٹرانزٹ پوائنٹس پر کُھلے آسمان تلے راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔
کچھ جگہوں پر افغان مہاجرین کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے اور جو مسمار نہیں کیے جا رہے وہاں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ درمیان میں ایسی اطلاعات ہیں کہ پولیس اہلکار ان کی نقدی اور اثاثے بھی چھین رہے ہیں، کسی کو اپنے جانور تک ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ مہاجرین کی سائیکلیں اور موٹر سائیکلیں تک ضبط ہو رہی ہیں۔
حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ اگر ایسا ہے بھی تو یہ کہاں لکھا ہے کہ چند افراد کی سزا سبھی مہاجرین کو دی جائے؟
اگر معیار یہی ہے تو پھر یورپ کو بھی یہاں آباد تمام مسلمانوں کو ملک بدر دینا چاہیے، لیکن یہاں ہم سب کا موقف یہ ہوتا تھا کہ یورپ میں ہونے والے خونریز حملوں میں صرف انتہاپسند جہادی شامل ہیں، جن کا ہم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
افغان مہاجرین کی اس بے دخلی کو یورپ کے کچھ وہ پاکستانی بھی صحیح قرار دے رہے ہیں، جو پانچ سال بعد ہی کسی یورپی ملک کے پاسپورٹ کے طلب گار ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان سے اُن بچوں کو بھی بے دخل کیا جا رہا ہے، جو بیس بیس سال سے اس ملک میں قیام پذیر ہیں، جو اس ملک میں پیدا ہوئے، جنہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی، جو یہاں کی گلیوں میں کھیلے ہیں، جن کی دوستیاں پاکستان میں ہیں۔
پاکستان میں اس وقت لیبیا جیسی جنگ نہیں ہے لیکن افغان مہاجرین کے لیے یہ صورت حال کسی جنگ سے کم بھی نہیں ہے۔ ایسی افراتفری میں سب سے زیادہ نقصان بیچارے ایک غریب کو ہی پہنچتا ہے۔ جب تک وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچتا ہے تو اس کی ساری جمع پونجی لٹ چکی ہوتی ہے، بہتر مستقبل کے خواب ریت کی طرح بکھر چکے ہوتے ہیں۔
اس افراتفری میں دہائیوں سے پاکستان میں مقیم افغان اپنا سامان، دُکانیں، جائیدادیں بیچیں گے، جنہیں سستے سے سستا خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔
لیبیا کی طرح پاکستان میں بھی ایسے کئی مالکان ہوں گے، جو وعدے کریں گے کہ تم افغانستان واپس جاؤ، تمہاری باقی رقم ہم افغانستان ٹرانسفر کر دیں گے۔
مجھے حبیب اللہ یاد آ رہا ہے، جس کی کمائی ہوئی رقم آج تک لیبیا سے واپس نہیں آئی۔ وہ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان ملک تک واپس آیا تھا اور اس کے مایوس چہرے پر چھائیوں اور ہاتھوں پر چھالوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچا تھا، بہتر مستقبل کے تمام خواب ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔