1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: ’اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود تعمیر نو نامکمل‘

علی کیفی AP
1 فروری 2017

افغانستان کے لیے امداد کے نگران ایک امریکی ادارے SIGAR (اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن) کے مطابق اربوں ڈالر کی امداد کے باوجود وہاں تعمیر نو کا عمل کمزور اور نامکمل ہے۔

https://p.dw.com/p/2WmFL
Afghanistan Taliban Kämpfer
افغان طالبان اور دیگر باغی گروپ ملک میں پہلے سے کہیں زیادہ علاقوں کو کنٹرول کرتے جا رہے ہیں اور اپنا دائرہٴ اثر بڑھا رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

اس طرح اِس ادارے نے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو دی جانے والی اپنی پہلی رپورٹ میں افغانستان میں تعمیر نو کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کی ایک تاریک تصویر پیش کی ہے۔ اس رپورٹ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ افغان حکومت کو مشکل سے آدھے ملک پر کنٹرول حاصل ہے، اس کی سکیورٹی فورسز کی نفری کم ہوتی جا رہی ہے اور منشیات کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔ مزید یہ کہ منشیات کے خاتمے کی کوششیں کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے افغان دارالحکومت کابل سے اپنے ایک جائزے میں اس رپورٹ کے ایک مثبت نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ افغانستان میں ساز و سامان اور خدمات کی خریداری میں کی جانے والی بدعنوانی نمایاں طور پر کم ہوئی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے 2014ء کے انتخابات کے بعد برسرِاقتدار آتے ہی کرپشن کے خلاف ایک ملک گیر مہم شروع کر دی تھی۔

John Sopko U.S. Special Inspector General for Afghanistan Reconstruction Archiv 2008
اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشنز آفس جان سوپکوتصویر: Getty Images/A. Wong

اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشنز آفس جان سوپکو نے دو سو انہتّر صفحات پر مشتمل اپنی یہ رپورٹ بدھ یکم فروری کو جاری کی ہے اور اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہر تین مہینے بعد تیار کی جانے والی یہ رپورٹ بیس جنوری کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسرِاقتدار آنے کے بعد سے سامنے آنے والی اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے۔ مزید یہ کہ واشنگٹن حکومت سن 2002ء  سے اب تک افغانستان میں تعمیرِ نو اور دیگر منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر ایک سو سترہ ارب ڈالر فراہم کر چکی ہے اور نئی امریکی انتظامیہ کے لیے اس امداد اور اس کے نتائج کو جانچنے کا یہ ایک اچھا موقع ہے۔

صرف گزشتہ تین ماہ کے دوران ہی جان سوپکو کے دفتر نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں ہوٹل اور رہائشی اپارٹمنٹس پر مشتمل ایک بڑی عمارت بنانے کا ننانوے ملین ڈالر کا ایک کنٹریکٹ اس بناء پر منسوخ کر دیا کہ افغان کنٹریکٹرز کو ادائیگی نہیں کی جا رہی تھی۔ اس تعمیراتی منصوبے کے لیے زیادہ تر مالی وسائل امریکا کی حکومت اور نجی اداروں نے فراہم کیے تھے۔

اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشنز آفس کا قیام 2008ء میں ایسی رپورٹوں کے بعد عمل میں آیا تھا کہ افغانستان میں امریکی اور افغان کنٹریکٹرز کی بدعنوانی اور بد انتظامی کی وجہ سے امریکی ٹیکس دہندگان کے کروڑوں ڈالر ضائع  ہو رہے ہیں۔ سوپکو نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پندرہ سال کا عرصہ گزرنے اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود اس ملک میں تعمیر نو کا عمل کمزور اور نامکمل ہے: ’’باغیوں کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے افغان فوج کو ڈونرز کے مسلسل تعاون کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کی تربیت اور محدود مدد بھی بدستور درکار ہے۔‘‘

US Soldaten in Afghanistan
’’باغیوں کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے افغان فوج کو ڈونرز کے مسلسل تعاون کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کی تربیت اور محدود مدد بھی بدستور درکار ہے‘‘تصویر: Getty Images/AFP/N. Shirzada

افغانستان مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی اڑسٹھ سالہ تاریخ کا سب سے بڑا اور طویل ترین آپریشن ہے تاہم سوپکو کا کہنا ہے کہ افغان نیشنل آرمی کی نفری کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ باغی پہلے سے کہیں زیادہ علاقوں کو کنٹرول کرتے جا رہے ہیں اور اپنا دائرہٴ اثر بڑھا رہے ہیں۔

’ایشیا فاؤنڈیشن‘ کے ایک سروے کے حوالے سے اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ زیادہ تر افغان یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2008ء  سے ریکارڈ رکھے جانے کے بعد سے صرف گزشتہ سال ہی تنازعات کی وجہ سے نصف ملین سے زائد افغانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے۔

گزشتہ ہفتے افغان وزارتِ دفاع نے بتایا تھا کہ پچھلے دَس ماہ کے دوران باغیوں نے اُنیس ہزار حملے کیے جبکہ اِسی عرصے کے دوران افغان سکیورٹی فورسز نے بغاوت کے انسداد کے لیے تقریباً سات سو آپریشن کیے۔

Afghanistan Drogenanbau
2016ء میں افغانستان میں صرف 355 ہیکٹر (877 ایکڑ) یعنی گزشتہ دَس سال میں سب سے کم رقبے پر کھڑی پوست کی فصلیں تباہ کی گئیںتصویر: Noorullah Shirzada/AFP/Getty Images

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں پہلے ملک کا 63.4 فیصد علاقہ افغان حکومت کے کنٹرول میں تھا، وہاں اب یہ علاقہ کم ہو کر محض 57.2 فیصد رہ گیا ہے۔ افغان وزارتِ دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابل حکومت کو بدستور ملک کے تمام چونتیس صوبوں پر کنٹرول حاصل ہے۔

طالبان نے اپنے دورِ حکومت کے آخری برسوں میں منشیات کی پیداوار پر پابندی لگا دی تھی جبکہ طالبان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی منشیات کی پیداوار میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ امریکی ادارے SIGAR کی رپورٹ کے مطابق 2015ء کے مقابلے میں 2016ء میں افیون کی پیداوار میں تینتالیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2016ء میں افغان کاشتکاروں نے پوست کے پودوں سے تقریباً چار ہزار آٹھ سو ٹن افیون تیار کی۔

پوست کی فصل تباہ کرنے کے سرکاری اقدامات میں بھی کمی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2016ء میں صرف 355 ہیکٹر (877 ایکڑ) رقبے پر پھیلی پوست کی فصلیں تباہ کی گئیں، جو کہ گزشتہ دَس سال میں سب سے کم رقبہ تھا۔