افغانستان: امریکی فوج کے انخلاء اور چہ مگوئیوں کا آغاز
19 جولائی 2011گزشتہ ہفتے 650 امریکی فوجیوں کے انخلاء کی خبر اُن درجنوں مقامی ٹیلی وژن اسٹیشنز نے نشر کی جو 2001 ء میں امریکی قیادت میں افغانستان کے قبضے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وجود میں آئے تھے۔
چند افغان باشندوں کا خیال ہے کہ 2014 ء کے اواخر تک افغانستان میں جاری جنگی مشن کے خاتمے کا عمل مکمل کرنے کے لیے غیر ملکی فوجی انخلا کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ محض ایک دکھاوا ہے۔ جیسا کہ شمالی افغان شہر مزارشریف کا ایک 36 سالہ دکان دار محمد علی کہتا ہے،’امریکی افغانستان کو کبھی نہیں چھوڑیں گے‘۔ مزار شریف اُن سات علاقوں میں شامل ہے جن کی سکیورٹی کی ذمہ داری رواں ہفتے افغان سکیورٹی فورسز کو سونپ دی جائے گی۔ محمد علی کا مزید کہنا ہے،’’امریکی افغانستان سے اپنے چند ہزار فوجیوں کو اس لیے واپس بلا رہے ہیں تاکہ اُن کے طویل المدتی منصوبوں کی طرف کسی کی توجہ نہ جائے اور وہ انہیں چھپا کر رکھ سکیں۔ امریکیوں نے افغانستان میں ایک طویل وقت گزارا ہے اور وہ اتنی آسانی سے افغانستان سے نہیں نکلیں گے۔‘‘
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے کہا ہے کہ اُس کے تمام جنگی فوجی وقت مقررہ تک افغانستان چھوڑ دیں گے۔ رواں ہفتے افغانستان کے چند علاقوں کو مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کرنے کا مرحلہ وار سلسلہ شروع کر دیا گیا، ساتھ ہی افغان صدر حامد کرزئی نے طالبان سے مفاہمت کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنے کی اپیل بھی دہرائی ہے۔
اتوار 17 جولائی کو نیوزی لینڈ کی فوج نے بامیان کی سکیورٹی کی ذمہ داری افغان فورسز کے حوالے کر دی تھی۔ بامیان طالبان مخالف سب سے محفوظ افغان صوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ آج یعنی پیر کو فوجی انخلاء کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے شورش زدہ شہر مہتر لام میں بھی مغربی فوجیوں کے انخلا کی ایک تقریب منعقد ہو رہی ہے۔
تاہم بہت سے افغان باشندوں میں امریکی جنگی مقاصد کے بارے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بحران یا تنازعہ ہمیشہ کسی نا کسی سازش کا حصہ ہوتا ہے اور اس کا مقصد افغانستان کے قدرتی معدنی ذخائر کو لوٹنا ہے۔ یہ ذخائر اب تک غیر مستعمل ہیں۔
افغان اور امریکی اہلکاروں کے اندازوں کے مطابق افغانستان کے معدنی ذخائر کی قیمت ایک ٹریلین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ اس سیکٹر میں اب تک محض چینی سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: افسر اعوان