افغانستان: حکمت یار غیر ملکی فوجی انخلا کی شرط سے دستبردار
5 اپریل 2016افغان دارالحکومت کابل سے منگل پانچ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق گلبدین حکمت یار برسوں سے روپوش ہیں اور ان کا کابل حکومت کے ساتھ ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات کے سلسلے میں ہمیشہ ہی یہ مطالبہ رہا تھا کہ ہندوکش کی اس ریاست سے تمام غیر ملکی فوجوں کو نکل جانا چاہیے۔
تاہم اب حزب اسلامی نامی اس پارٹی کے ایک عہدیدار اور حکمت یار کے قریبی ساتھی امین کریم نے کہا ہے کہ اب حکمت یار کا یہ مطالبہ نہیں رہا کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی دستوں کو واپس چلے جانا چاہیے۔ افغانستان کی صورت حال پر نظر رکھنے والے کئی تجزیہ کاروں کی رائے میں اس تبدیلی کے بعد کسی حد تک یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب اس ملک میں مسلح مزاحمت کرنے والے سبھی نہیں تو چند شدت پسند گروپوں کے ساتھ کابل حکومت کے ممکنہ امن مذاکرات مقابلتاﹰ آسان ہو جائیں گے۔
گلبدین حکمت یار کو امریکا نے ایک ’عالمگیر دہشت گرد‘ قرار دے رکھا ہے تو اقوام متحدہ نے بھی انہیں بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔ ان کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں کہیں روپوش ہیں جب کہ ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ وہ افغانستان ہی میں ہیں۔
گزشتہ برس حزب اسلامی کے اس رہنما نے طویل عرصے تک خاموشی اختیار کیے رہنے کے بعد کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے اپنی شرائط واضح کر دی تھیں۔ ان میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ ملک میں موجود تمام غیر ملکی فوجی دستوں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔
اس موقف کے برعکس حکمت یار کے قریبی ساتھی امین کریم نے منگل پانچ اپریل کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اب ’غیر ملکی فوجی انخلا حکمت یار کی کوئی شرط نہیں بلکہ ایک مقصد‘ ہے۔ ساتھ ہی امین کریم نے یہ بھی کہا کہ گلبدین حکمت یار کے حامیوں کی کوئی شرائط نہیں ہیں، ’’ہمارے صرف اصول ہیں۔‘‘
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ فی الحال یہ درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ایک جنگی رہنما کے طور پر حکمت یار کو افغانستان میں اس وقت کتنا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ انہوں نے اپنے موقف میں بنیادی تبدیلی کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کا مقصد ایک طرف تو افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو اپنی طرف سے لچک کا اشارہ دینا ہے اور دوسری طرف یہ کوشش بھی ہے کہ حکمت یار اور ان کی حزب اسلامی افغان سیاسی منظر نامے سے کسی نہ کسی طرح مربوط رہیں۔
حکمت یار نے اب تک ایک شدت پسند رہنما کی زندگی گزاری ہے۔ سوویت فوجی مداخلت کے دور میں حزب اسلامی ’مجاہدین‘ کہلانے والے جنگجوؤں میں شامل ایک بڑی طاقت تھی، جس کے مسلح عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔ حزب اسلامی کے فائٹر آج بھی افغانستان میں سرگرم ہیں اور ان کی طرف سے آخری مصدقہ حملہ 2013 ء میں کیا گیا تھا۔ اس حملے میں کابل شہر کے وسط میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں چھ امریکی فوجی بھی شامل تھے۔
حزب اسلامی کے عہدیدار امین کریم کے مطابق، ’’ہمیں یقین ہے کہ اگر حزب اسلامی کابل حکومت کے ساتھ مکالمت کے نتیجے میں کسی امن معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تو اس عمل سے طالبان سمیت دوسرے مسلح گروپوں کے لیے بھی راستہ کھل جائے گا۔‘‘
افغان صدر اشرف غنی کے دفتر نے حکمت یار کے نئے موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ حکمت یار کے تعاون سے کی جانے والی امن کوششوں کے ساتھ ملک میں خونریزی میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔
صدارتی دفتر کے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا گیا، ’’اگر یہ جنگی رہنما امن عمل میں شامل ہوتے ہیں تو حزب اسلامی وہ پہلا مسلح گروپ ثابت ہو گی، جو صدر غنی کی طرف سے کھولے گئے دروازے سے اندر آ کر امن مذاکرات میں شامل ہو گا۔‘‘