1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: حکمت یار غیر ملکی فوجی انخلا کی شرط سے دستبردار

مقبول ملک5 اپریل 2016

افغانستان کے سرکردہ جنگی رہنما اور حزب اسلامی کے مطلوب سربراہ گلبدین حکمت یار ملک میں چار عشروں سے زائد عرصے سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلا کی اپنی بنیادی شرط سے دستبردار ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IPYl
Afghanistan Taliban Gulbuddin Hekmatyar
حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یارتصویر: AP

افغان دارالحکومت کابل سے منگل پانچ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق گلبدین حکمت یار برسوں سے روپوش ہیں اور ان کا کابل حکومت کے ساتھ ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات کے سلسلے میں ہمیشہ ہی یہ مطالبہ رہا تھا کہ ہندوکش کی اس ریاست سے تمام غیر ملکی فوجوں کو نکل جانا چاہیے۔

تاہم اب حزب اسلامی نامی اس پارٹی کے ایک عہدیدار اور حکمت یار کے قریبی ساتھی امین کریم نے کہا ہے کہ اب حکمت یار کا یہ مطالبہ نہیں رہا کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی دستوں کو واپس چلے جانا چاہیے۔ افغانستان کی صورت حال پر نظر رکھنے والے کئی تجزیہ کاروں کی رائے میں اس تبدیلی کے بعد کسی حد تک یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اب اس ملک میں مسلح مزاحمت کرنے والے سبھی نہیں تو چند شدت پسند گروپوں کے ساتھ کابل حکومت کے ممکنہ امن مذاکرات مقابلتاﹰ آسان ہو جائیں گے۔

گلبدین حکمت یار کو امریکا نے ایک ’عالمگیر دہشت گرد‘ قرار دے رکھا ہے تو اقوام متحدہ نے بھی انہیں بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔ ان کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں کہیں روپوش ہیں جب کہ ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ وہ افغانستان ہی میں ہیں۔

گزشتہ برس حزب اسلامی کے اس رہنما نے طویل عرصے تک خاموشی اختیار کیے رہنے کے بعد کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے اپنی شرائط واضح کر دی تھیں۔ ان میں یہ شرط بھی شامل تھی کہ ملک میں موجود تمام غیر ملکی فوجی دستوں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔

Kombo 6er Afghanistan Mudschahedin Mujaheddin Anführer
افغان خانہ جنگی کے دور کے چھ سرکردہ مجاہدین رہنما

اس موقف کے برعکس حکمت یار کے قریبی ساتھی امین کریم نے منگل پانچ اپریل کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اب ’غیر ملکی فوجی انخلا حکمت یار کی کوئی شرط نہیں بلکہ ایک مقصد‘ ہے۔ ساتھ ہی امین کریم نے یہ بھی کہا کہ گلبدین حکمت یار کے ‌حامیوں کی کوئی شرائط نہیں ہیں، ’’ہمارے صرف اصول ہیں۔‘‘

نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ فی الحال یہ درست اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ایک جنگی رہنما کے طور پر حکمت یار کو افغانستان میں اس وقت کتنا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ انہوں نے اپنے موقف میں بنیادی تبدیلی کا جو فیصلہ کیا ہے، اس کا مقصد ایک طرف تو افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کو اپنی طرف سے لچک کا اشارہ دینا ہے اور دوسری طرف یہ کوشش بھی ہے کہ حکمت یار اور ان کی حزب اسلامی افغان سیاسی منظر نامے سے کسی نہ کسی طرح مربوط رہیں۔

حکمت یار نے اب تک ایک شدت پسند رہنما کی زندگی گزاری ہے۔ سوویت فوجی مداخلت کے دور میں حزب اسلامی ’مجاہدین‘ کہلانے والے جنگجوؤں میں شامل ایک بڑی طاقت تھی، جس کے مسلح عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔ حزب اسلامی کے فائٹر آج بھی افغانستان میں سرگرم ہیں اور ان کی طرف سے آخری مصدقہ حملہ 2013 ء میں کیا گیا تھا۔ اس حملے میں کابل شہر کے وسط میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں چھ امریکی فوجی بھی شامل تھے۔

Aschraf Ghani Präsident von Afghanistan
افغان صدر اشرف غنیتصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

حزب اسلامی کے عہدیدار امین کریم کے مطابق، ’’ہمیں یقین ہے کہ اگر حزب اسلامی کابل حکومت کے ساتھ مکالمت کے نتیجے میں کسی امن معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تو اس عمل سے طالبان سمیت دوسرے مسلح گروپوں کے لیے بھی راستہ کھل جائے گا۔‘‘

افغان صدر اشرف غنی کے دفتر نے حکمت یار کے نئے موقف کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ حکمت یار کے تعاون سے کی جانے والی امن کوششوں کے ساتھ ملک میں خونریزی میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔

صدارتی دفتر کے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا گیا، ’’اگر یہ جنگی رہنما امن عمل میں شامل ہوتے ہیں تو حزب اسلامی وہ پہلا مسلح گروپ ثابت ہو گی، جو صدر غنی کی طرف سے کھولے گئے دروازے سے اندر آ کر امن مذاکرات میں شامل ہو گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں