افغانستان، دنیا کا تیسرا بدعنوان ترین ملک: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
6 اکتوبر 2016برسلز میں دو روزہ ڈونرز کانفرنس کے آخری روز، جو شرکاء کے لیے ایک طویل دن تھا، یورپی یونین کے ترقیاتی امداد کے نگران کمشنر نَیوَین مِیمِیتسا نے اعلان کیا کہ افغانستان کو 2020ء تک 15.2 بلین امریکی ڈالر کی فراہمی کے وعدے کیے گئے ہیں، جن میں سے قریب چار چار بلین ڈالر امریکا اور یورپی یونین کی رکن ریاستیں مہیا کریں گی اور باقی امدادی رقوم بین الاقوامی برادری کے درجنوں دیگر ملک۔
اس موضوع پر برسلز سے ڈی ڈبلیو کے نامہ نگار بیرنڈ ریگرٹ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں: یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران اہلکار فیدیریکا موگیرینی نے کابل میں افغان یونٹی حکومت کی تعریف کرنے کے علاوہ اپنی تعریف بھی کی اور کہا، ’’ہم نے امدادی رقوم کی فراہمی کے وعدوں میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن بات صرف امدادی رقوم ہی کی نہیں بلکہ ایک واضح سیاسی اشارہ دینے کی بھی ہے۔‘‘
ساتھ ہی موگیرینی نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین افغانستان کے سفر میں ہر قدم پر اس کے ساتھ ہو گی، چاہے اس میں کتنی ہی مشکلات پیش کیوں نہ آئیں۔
بیرنڈ ریگرٹ لکھتے ہیں کہ افغان حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کانفرنس کے شرکاء کا اربوں ڈالر کی امدادی رقوم کی فراہمی کے نئے وعدوں کی وجہ سے شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ افغانستان گزشتہ پندرہ برسوں سے جس سفر میں ہے، وہ ابھی پورا تو نہیں ہوا لیکن وہ اب اپنے فیصلہ کن مرحلے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔
اسی طرح افغان صدر اشرف غنی نے ڈونرز کانفرنس کی اختتامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان دور حکومت کے خاتمے کی وجہ بننے والی امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں کی جانے والی فوجی مداخلت کے پندرہ برس بعد اس ملک کی تعمیر نو صرف ڈونر ریاستوں ہی کی ذمے داری نہیں بلکہ اس سلسلے میں بہت بڑی ذمے داری خود افغان عوام اور حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔
ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار بیرنڈ ریگرٹ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ افغان تعمیر نو کے عمل میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہندوکش کی اس ریاست میں پائی جانے والی بدعنوانی بھی ہے۔ افغانستان دنیا کا تیسرا بدعنوان ترین ملک ہے اور وہاں ہر جگہ نظر آنے والی کرپشن کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
برسلز کانفرنس میں جو 70 ممالک شریک ہوئے، وہ اب تک افغانستان کو مجموعی طور پر 113 بلین ڈالر مہیا کر چکے ہیں۔ ان رقوم کا زیادہ تر حصہ افغان سکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کی تربیت اور ان کی تنخواہوں پر خرچ کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی رائے میں افغانستان کی تعمیر و ترقی کے عمل میں معمولی پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن اس ملک میں سلامتی کی صورت حال پہلے کی طرح اب تک انتہائی مخدوش ہے۔
خود صدر اشرف غنی نے بھی اعتراف کیا کہ کابل حکومت کو ملک میں جرائم، بدعنوانی اور غربت کے خلاف لازمی طور پر کامیاب جنگ لڑنا ہو گی، ورنہ افغانستان کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ عالمی برادری اس کی مدد کرے۔
برینڈ ریگرٹ کے مطابق افغانستان کی تعمیر و ترقی کے عمل میں یہ بات بھی فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے کہ وہاں جرائم اور کرپشن پر قابو پایا جائے، بیرون ملک مقیم کئی ملین افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپسی کا موقع ملے اور امدادی رقوم کو بہت شفاف انداز میں ایسے استعمال کیا جائے کہ ان کے ملکی سکیورٹی فورسز پر اخراجات کے علاوہ دیگر شعبوں میں استعمال کے بھی واضح نتائج دیکھے جا سکیں۔