افغانستان: دو سرکاری ملازمین ہلاک، بيس شہری اغوا
28 دسمبر 2020افغان صوبے غزنی کے علاقائی اہلکاروں نے پیر 28 دسمبر کو اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ قرہ باغ کے علاقے سے اغوا کیے گئے ان افراد کو کسی نا معلوم مقام پہنچا دیا گیا ہے۔ صوبائی کونسلروں ناصر احمد فقیری اور جمرود وال نے یہ اطلاعات خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو دیں۔ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس علاقے میں اغوا کا یہ واقعہ پیش آیا، وہ مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں ہے۔ دوسری جانب طالبان کے ایک ترجمان نے ڈی پی اے کو بتایا کہ اس کارروائی کی چھان بين جاری ہے تاہم گروپ نے مزيد تفصیلات نہیں بتائیں۔
غزنی افعانستان کے سب سے زیادہ شورش زدہ صوبوں میں سے ایک ہے اور اس کے نصف اضلاع پر باغیوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ طالبان حکومتی فورسز کے خلاف برسرپيکار ہيں اور یہ باقی ماندہ علاقوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔
پیر کی صبح غزنی کے دارالحکومت قرہ باغ میں دو سرکاری ملازمین کو بندوق برداروں نے ہلاک کر دیا۔ اس بارے میں غزنی پولیس نے اطلاعات فراہم کیں۔ افغانستان میں تشدد کے واقعات میں واضح اضافہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب کابل حکومت اور طالبان کئی دہائیوں سے چلے آرہے سیاسی بحران کے حل کے لیے تین ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ فی الحال حکومت اور طالبان کے مابین مذاکراتی عمل میں تین ہفتوں کا وقفہ ہے۔ کابل حکومت نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ دوبارہ بات چیت 5 جنوری کو دوحہ میں شروع ہو گی۔
افغانستان میں دہشت گردی اور شورش میں اضافے کی کُھلی نشاندہی حالیہ چند دنوں کے اندر وہاں کابل سمیت مختلف علاقوں میں ہونے والے واقعات ہیں۔ ایسے ہی ایک حاليہ واقعے میں گزشتہ جمعرات کو دارالحکومت کابل کے شمال میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم خاتون کارکن اور ان کے بھائی کو موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ فرشتہ کوہستانی کی عمر 29 برس تھی اور وہ افعانستان میں دو روز کے اندر اندر قتل کی جانے والی دوسری جمہوریت پسند رضاکار تھیں۔ یاد رہے کہ 21 دسمبر کو افغانستان کے معروف صحافی رحمت اللہ نیک زاد کو نا معلوم افراد نے اُس وقت قتل کر ديا تھا جب وہ اپنے گھر کے نزدیک ایک مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ رحمت اللہ اس حملے میں مارے گئے تھے اور ان کے قتل کے لیے استعمال ہونے والے ہتھیار کے بارے میں مقامی پولیس نے بتایا تھا کہ حملہ آور نے ایک ایسی بندوق سے ان پر گولی چلائی جو سائلنسر سے لیس تھی۔
فرشتہ کوہستانی نے گزشتہ برس ہونے والے افغانستان کے صدارتی انتخابات کے دوران عبداللہ عبداللہ کے لیے ان کی انتخابی مہم میں کلیدی کردار ادا کيا تھا۔ اپنے قتل سے دو روز قبل انہوں نے فیس بُک پر حکام سے اپنے لیے سکیورٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ انہیں مسلسل دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ قبل ازيں نومبر میں انہوں نے ایک ٹويٹر پیغام میں لکھا تھا،''افغانستان میں امن کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اپنے کفن کا بندوبست رکھے کیونکہ آنے والا کل آپ کی موت لے کر آسکتا ہے۔‘‘
ک م/ ع س )نيوز ایجنسیاں(