افغانستان سے انخلاء کا بائیڈن کا فیصلہ درست تھا، بلینکن
14 ستمبر 2021امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن افغانستان سے انخلا کے حوالے سے پیر کے روز کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور ان کے سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی۔ تاہم ان کی باتوں سے محسوس ہوا کہ انہوں نے انخلا کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پر ڈالنے کی کوشش کی۔
امریکی زیر خارجہ کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں مزید وقت رکنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہمیں ڈیڈ لائن (انخلا کا مقررہ وقت) تو ورثے میں ملی تھی تاہم اس حوالے سے کوئی منصوبہ ورثے میں نہیں ملا۔''
انہوں نے کہا کہ فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس میں طالبان کی طرف سے بعض یقین دہانیوں کے عوض بین الاقوامی فورسز کی تعداد کم کرنے پر اتفاق ہوا تھا اور اسی کی وجہ سے طالبان ''نائن الیون کے بعد کی مضبوط ترین فوجی پوزیشن میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔''
امریکا نے افغانستان کے اس انجام کی پیش گوئی کیوں نہیں کی؟
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج کے انخلا کے دوران صدر جو بائیڈن اور ان کے خود کے عملے کی تمام تر توجہ ملکی شہریوں کی حفاظت پر مرکوز تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ نے فوجیوں کے انخلا کے بعد جو، ''کچھ بھی ہونے والا تھا اس سے نمٹنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی تھی اور اس کا استعمال بھی کیا گیا'' اور اس کا مسلسل جائزہ بھی لیا جا رہا تھا۔
تاہم انہوں نے کہا، ''انتہائی مایوس کن اندازوں میں بھی یہ پیش گوئی نہیں کی گئی تھی کہ امریکی افواج کے ہوتے ہوئے بھی کابل میں افغان حکومتی فورسز کو اس طرح کی پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔'' انہوں نے انخلا کی ''غیر معمولی کوششوں '' کی تعریف کی جس کے تحت کابل سے ایک لاکھ 24 ہزار لوگوں کو ہوائی جہاز کے ذریعے وہاں سے منتقل کیا گیا۔
لیکن کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک ریپبلیکن رکن مائک میکال نے افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے خاتمے کے اس انجام کو، ''ایک لا محدود پیمانے کی تباہی'' قرار دیا۔
کیا امریکا افغانستان میں مزید وقت تک رک سکتا تھا؟
ریپبلیکن رکن میکال، نے بلیکن سے سخت سوالات کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان، ''اب طالبان کے دہشت گردی کے راج اور شرعی قوانین کے سیاہ پردے'' کے رحم و کرم پر ہے۔
ایک دوسرے ریپبلیکن رکن گریگ اسٹیوب کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے معاہدے کے تحت بعض شرائط بھی رکھی گئی تھیں جن پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے انٹونی بلینکن سے کہا، ''اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری آپ ٹرمپ کی انتظامیہ پر نہیں ڈال سکتے۔''
لیکن بلینکن نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ طالبان نے ٹرمپ معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی، تاہم ان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بائیڈن کو وہاں مزید امریکی، ''فوج بھیجنی پڑتی۔'' انہوں نے کہا، ''اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہاں زیادہ دیر رہنے سے افغان سکیورٹی فورسز یا افغان حکومت مزید مزاحمت کر سکتی یا خود کو برقرار رکھ پاتی۔''
بلیکن نے ارکان سے سوال کرتے ہوئے کہا، ''اگر 20 برس اور سیکڑوں اربوں ڈالر کی امداد، سامان اور تربیت کافی ثابت نہیں ہوئی تو پھر ایک اور سال، یا مزید پانچ یا مزید دس برس کیوں کافی ہوتے؟''
اس موقع پر خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ اور ڈیموکریٹک رکن گریکوری میکس نے بحث کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نہیں لگتا ہے، '' بد نظمی اور افراتفری سے پر بیس سالہ اس جنگ کے بعد انخلا اتنا ہموار ممکن تھا۔''
امریکی وزیر خارجہ کو افغان جنگ کے حوالے سے ہی 14 ستمبر منگل کے روز ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پیش ہونا ہے اور وہاں بھی انہیں ایسے ہی سخت سوالات کا سامنا ہو گا۔ امریکا میں ایک بڑا طبقہ افغانستان کے انخلا کے حوالے سے خوش نہیں ہے اور اس کا ماننا ہے کہ اسے مزید بہتر انداز میں انجام دیا جا سکتا تھا۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)