افغانستان سے جرمن فوجیوں کے انخلا کا اعلان
16 دسمبر 2010گزشتہ 9 سالوں سے افغانستان متعینہ جرمن فوجیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اب جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے حتمی طور پر یہ اعلان کر دیا ہے کہ افغانستان سے جرمن فوج کے انخلاء کا سلسلہ 2011ء کے اواخر سے شروع ہو جائے گا۔ تاہم یہ بات اب بھی واضح نہیں ہے کہ ہندو کُش سے آخری جرمن فوجی کب وطن واپس آ سکیں گے۔
آج برلن میں وفاقی پارلیمان کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اعلان کیا کہ آئندہ سال یعنی 2011ء میں افغانستان میں تعینات جرمن فوجیوں کی پہلی کھیپ وطن لوٹ آئے گی۔ فری ڈیمو کریٹک پارٹی ایف ڈی پی کے لیڈر ویسٹر ویلے نے یہ بات دراصل وفاقی پارلیمان میں ہندوکُش میں جرمن فوج کی اب تک کی کار کردگی کے بارے میں ایک حکومتی پالیسی بیان دیتے ہوئے کہی۔ ویسٹر ویلے نے کہا ’2011ء تک ہم افغانستان متعینہ اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر سکیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 2014ء تک افغانستان میں امن و سلامتی کی مکمل ذمہ داری افغان حکام کو سونپ دیں، اُس کے بعد ہندوکُش میں جرمن جنگی دستوں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی‘۔
ویسٹر ویلے کے اس جملے پر کہ افغانستان میں جنگی دستوں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی، جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی کے دھڑے کے رکن Jan van Aken کے کان کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ’یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیگر جرمن فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے اور تمام جرمن فوجی دستوں کا انخلاء عمل میں نہیں آئےگا۔‘
اُدھر سوشل ڈیمو کریٹس نے بھی جرمن حکومت کی طرف سے افغانستان متعینہ جرمن فوجیوں کے انخلاء کے فیصلے کی مزید وضاحت طلب کی ہے، خاص طور سے انخلاء کی تاریخ کی۔ اپوزیشن کی طرف سے اس امر کو البتہ سراہا گیا کہ برلن حکومت نے پہلی بار افغانستان کی صورتحال کا ایک مفصل جائزہ پیش کیا ہے۔ تاہم اپوزیشن کی تنقید یہ ہے کہ اس تفصیل میں جرمن فوجیوں کی افغانستان میں سرگرمیوں کا موضوع شامل نہیں کیا گیا۔
108 صفحات پر مشتمل اِس رپورٹ کا مقصد پارلیمان کے ممبران کو جنوری میں مجوزہ اُس رائے شماری سے پہلے بنیادی معلومات فراہم کرنا ہے، جس میں افغانستان مینڈیٹ کی توسیع کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
جرمن وزیر خارجہ ویسٹر ویلے نے تاہم آج پارلیمان میں اپنے پالیسی بیان میں اس امر کا اعتراف کیا کہ افغانستان میں پائی جانے والی بدعنوانی ناقابل قبول ہے اور بد عنوانی کو حالیہ انتخابات میں دھاندلیوں کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم ویسٹر ویلے کے مطابق ایک مثبت علامت یہ ہے کہ افغان حکام نے اس بارے میں پہلو تہی نہیں کی بلکہ اس کا نوٹس لیا۔
اُدھر افغانستان متعینہ غیر ملکی فوج کی سربراہی کرنے والے ملک امریکہ کے صدر باراک اوباما بھی آج ہی افغانستان کی امریکی پالیسی کا ایک جائزہ پیش کرنے والے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اوباما کی تقریر میں محض کامیابیوں کا ذکر ہوگا جبکہ خود امریکی عوام کے اندر افغانستان جنگ کی مخالفت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وہ بھی افغانستان میں کرپشن کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی