افغانستان ميں طالبان کہاں کہاں قابض ہيں، اب کيسے پتہ چلے گا؟
1 مئی 2019
نيٹو کے مشن نے اس بارے ميں معلومات جمع کرنا ختم کر دی ہیں کہ افغانستان ميں طالبان کن کن علاقوں پر قابض ہيں۔ اس بارے ميں امريکی ’آفس فار دا اسپيشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن‘ يا (SIGAR) کی رواں برس کی پہلی سہ ماہی رپورٹ ميں اطلاعات فراہم کی گئی ہیں۔ يہ رپورٹ منگل کو امريکی کانگريس ميں پيش کی گئی۔ رپورٹ ميں لکھا ہے کہ نيٹو نے اس بارے ميں امريکی حکام کو سرکاری طور پر آگاہ کر ديا ہے۔ يہ بھی بتايا گيا ہے کہ يہ فيصلہ اس ليے کيا گيا کيونکہ حاصل شدہ معلومات فيصلہ سازی کے عمل ميں زيادہ ساز گار ثابت نہيں ہوتی تھیں۔
يہ پيش رفت ايک ايسے موقع پر ہوئی ہے کہ امريکا کی قيادت ميں افغان امن عمل جاری ہے۔ افغان طالبان اور امريکی نمائندگان کے مابين امن مذاکرات کا چھٹا دور بدھ يکم مئی سے شروع ہو چکا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ ضلعی سطح پر جمع کردہ آخری معلومات کے مطابق کابل حکومت ملک کے چون فيصد حصے يا لگ بھگ پينسٹھ فيصد آبادی پر کنٹرول رکھتی ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ پچھلے چند ماہ ميں جب سے امن عمل بحال ہوا ہے، افغانستان ميں پر تشدد واقعات ميں بھی اضافہ ديکھا گيا ہے۔
رپورٹ ميں امريکی واچ ڈاگ نے خبردار کيا ہے کہ افغانستان امن کے ليے اس وقت تک تيار نہيں جب تک ملک کی اعلیٰ قيادت طالبان کے معاشرے ميں دوبارہ انضمام کے ليے باقاعدہ حکمت عملی کا تعين اور بد عنوانی کے خاتمے کے ليے اقدامات نہيں کرتی اور منشيات کے مسئلے سے نہيں نمٹتی۔ ’سيگار‘ کے سربراہ جان ايف سوپکو کا کہنا ہے، ’’چاہے امن کو کتنا بھی خوش آمديد کيا جائے، اس کے غير متوقع نتائج سامنے آ سکتے ہيں۔‘‘
رپورٹ ميں يہ بھی بتايا گيا ہے کہ امريکی حکومت افغان سکيورٹی دستوں پر سالانہ پانچ بلين ڈالر خرچ کرتی ہے۔ امريکی محکمہ دفاع پينٹاگون کے مطابق افغانستان ميں سترہ سال سے جاری جنگ پر امريکا 737 بلين ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ سن 2002 سے لے کر اب تک تعمیر نو پر بھی 132 بلين ڈالر کے اخراجات آ چکے ہيں۔
ع س / ک م، نيوز ايجنسیاں