افغانستان میں اگلے برس کے آخر تک کے لیے جرمن فوجی مشن منظور
16 نومبر 2016وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے بدھ سولہ نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق چانسلر میرکل کی کابینہ نے آج اس امر کی منظوری دے دی کہ افغانستان میں جرمنی کا موجودہ فوجی مشن آئندہ بھی وہاں اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا۔
اس طرح جرمنی کی فیڈرل آرمی کے مجموعی طور پر ہندوکش کی بدامنی کی شکار اس ریاست میں تعینات مجموعی طور پر 980 فوجی اب 31 دسمبر 2017ء تک وہاں اپنی ذمے داریاں انجام دے سکیں گے۔
ایک حکومتی ترجمان کے مطابق وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کی جرمن پارلیمان کی طرف سے لازمی منظوری ابھی باقی ہے۔ روئٹرز نے لکھا ہے کہ میرکل کابینہ نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب ابھی چند ہی روز قبل شمالی افغان شہر مزار شریف میں مسلح طالبان عسکریت پسندوں نے وہاں جرمن قونصل خانے پر حملہ کر کے کم از کم چار افغان شہریوں کو ہلاک اور 100 سے زائد کو زخمی کر دیا تھا۔
برلن میں جاری کردہ ایک حکومتی بیان میں بدھ کے روز کہا گیا، ’’اپنے 980 تک فوجیوں کے ساتھ وفاقی جرمن فوج افغانستان میں آئندہ بھی ملکی سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی تربیت، معاونت اور مشاورت کا کام کرتی رہے گی۔‘‘
افغانستان میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی سربراہی میں فرائض انجام دینے والے فوجی مشن ’ریزولیوٹ سپورٹ‘ کی شمالی افغانستان میں قیادت جرمنی ہی کے پاس ہے اور جرمنی کے زیادہ تر فوجی مزار شریف کے مضافات میں تعینات ہیں۔ افغانستان میں قریب ایک ہزار جرمن فوجیوں میں سے 150 ملکی دارالحکومت کابل میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
’ریزولیوٹ سپورٹ‘ مشن میں مجموعی طور پر نیٹو کے رکن ملکوں کے 13 ہزار فوجی شامل ہیں، جن کا تعلق امریکا، جرمنی، اٹلی اور کئی دیگر ممالک سے ہے۔ نیٹو کے ان دستوں کا مرکزی کام افغان فوج اور پولیس کی تربیت ہے نہ کہ وہاں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگی کارروائیوں میں حصہ لینا۔
جرمنی نے نہ صرف مشن ’ریزولیوٹ سپورٹ‘ کے لیے اپنے فوجی دستے مہیا کر رکھے ہیں بلکہ برلن حکومت افغانستان کی بھرپور مدد بھی کر رہی ہے۔ 2020ء تک جرمنی کی طرف سے افغانستان کو غیر فوجی نوعیت کی سویلین امداد کی صورت میں 1.7 ارب یورو مہیا کیے جائیں گے۔