افغانستان میں امریکی فوجی ہلاک، امن عمل کا کیا ہو گا؟
13 جولائی 2019خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ افغانستان میں رونما ہوئے ایک پرتشدد واقعے میں ایک امریکی فوجی مارا گیا ہے۔ نیٹو فورسز کے حوالے سے اس ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی۔ تاہم مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی زیر سربراہی ریزولیوٹ سپورٹ مشن نے ہلاک ہونے والے اس فوجی کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔
افغانستان میں امریکی فوجی کی یہ تازہ ہلاکت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب امریکا اور افغانستان کے مابین امن مذاکرات کی کوششوں کو تیز کیا جا چکا ہے۔ رواں برس افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی تعداد دس ہو گئی ہے۔ گزشتہ برس افغانستان میں مارے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد بارہ تھی۔
حالیہ عرصے میں افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان میں قیام امن کی عالمی کوششوں میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافہ یہ اشارہ دیتا ہے کہ یہ جنگجو امن مذاکرات میں اپنا پلہ بھاری رکھنا چاہتے ہیں۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق افغانستان میں تعینات امریکی فوجی مقامی دستوں کے ہمراہ روزانہ کی بنیادوں پر باغیوں کے خلاف کارروائی کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کارروائی میں گزشتہ ماہ بھی دو امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
افغانستان میں اس وقت تقریبا چودہ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں، جو زیادہ تر افغان دستوں کو مشاورت اور تربیت کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ماضی میں افغانستان میں تعینات ان فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تک بھی تھی۔ افغانستان میں گزشتہ تقریبا اٹھارہ برسوں سے جاری جنگ میں تقریبا تئیس سو فوجی ہلاک جبکہ بیس ہزار چار سو زخمی ہو چکے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا جلد از جلد انخلا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کی خاطر واشنگٹن نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے۔ تاہم دوسری طرف اعلیٰ امریکی فوجی جنرل مارک مِیلی نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا قبل از وقت مکمل انخلا 'اسٹریٹیجک غلطی‘ ہو گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جوائنٹ چیفس چیئرمن کے لیے نامزد کردہ جنرل میلی نے سینیٹرز کو بتایا کہ واشنگٹن حکومت کو عراق اور شام میں بھی 'مناسب تعداد‘ میں فوجیوں کو تعینات رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ خطے میں استحکام کی خاطر ان ممالک میں عسکری موجودگی برقرار رکھنا ہو گی۔ اکسٹھ سالہ جنرل مِیلی نے گزشتہ ہفتے ہی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس تناظر میں بہترین مشورے دیں گے۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے