افغانستان میں تازہ تشدد، کم از کم 22 افراد ہلاک
20 جون 2016کابل میں خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیر کو ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں متعدد متاثرین کو دیکھا گیا، جو بظاہر ہلاک دکھائی دے رہے تھے اور خود کُش حملے کا شکار ہونے والی زرد منی بس سے شاہدین نے دو زخمیوں کو باہر نکالتے ہوئے بھی دیکھا۔
کابل میں پیر کی صُبح نہایت گھما گھمی کے اوقات میں یہ منی بس نیپالی سکیورٹی کانٹریکٹرز کو لے کر جا رہی تھی۔
چند گھنٹوں بعد شمالی افغان صوبے بدخشاں میں ایک موٹر سائیکل میں نصب بم کے پھٹنے کے نتیجے میں مزید آٹھ شہری ہلاک جبکہ کم از کم 18 زخمی ہوگئے۔ اس بارے میں صوبائی ترجمان نوید فروتان نے تفصیلات بتاتے ہوئے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا۔
وزارت داخلہ کے ایک ترجمان صدیق صدیقی نے منی بس پر ہوئے حملے کے بارے میں ایک ٹوئٹر پر تفصیلات بتاتے ہوئے تحریر کیا تھا، ''ابتدائی رپورٹ کے مطابق آج کا دہشت گردانہ حملہ کابل میں ہوا جس کے نتیجے میں 14 افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیں اور آٹھ زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس ہلاک ہونے والوں کی شناخت کی کوششیں کر رہی ہے۔‘‘
اطلاعات کے مطابق خوُد کُش حملہ آور پیدل تھا اور وہ منی بس کے انتظار میں کھڑا تھا، جس پر نیپالی گارڈز سوار تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا کے ذریعے قبول کر لی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ حملہ پیر کو مقامی وقت کے مطابق صبح چھ بجے کے قریب کابل کے مشرق میں جلال آباد کو جانے والی مرکزی سڑک کے قریب ہوا ہے۔ رواں سال رمضان کے دوران کابل میں ہونے والا یہ پہلا حملہ ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اس سے قبل 19 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں 64 جانیں ضائع ہوئی تھیں جبکہ 340 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اُس خونریز حملے کی ذمہ داری بھی افغان طالبان ہی نے قبول کی تھی جو 2001ء میں افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے مغرب نواز کابل حکومت کے خلاف بغاوت اور جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں واشنگٹن انتظامیہ نے افعانستان میں طالبان کے خلاف فضائی حملے کے لیے ہندو کُش کی اس ریاست میں اپنی فوجی قوت میں اضافے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد افغانستان کی قومی فورسز کو واضح طور پر تقویت فراہم کرنا ہے جس کے پاس طالبان کے خلاف فضائی کارروائیوں کے لیے موجود وسائل محدود ہیں۔
یاد رہے کہ 2015 ء کے بعد سے افغانستان میں امریکی فوج کا کردار مشاورتی ہے اور اُسے طالبان کو مارنے کی اجازت محض اپنے دفاع یا افغان فوجیوں کو تحفظ فراہم کرنے کی صورت میں ہے۔
اس ضمن میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کا مقصد یہ ہوگا کہ امریکی فوجی مقامی افغان جنگجوؤں کے ساتھ مزید قریبی تعاون سے طالبان پر حملہ کر سکیں گی۔ طالبان افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیوں کے مکمل انخلاء کا مطالبہ کر رہے ہیں۔