افغانستان میں دو لاکھ پاکستانی کام کرتے ہیں
2 جولائی 2014اپنے ملک میں بدامنی کی وجہ سے لاکھوں افغان شہری دوسرے ملکوں میں پناہ گزین ہیں لیکن افغان دارالحکومت کابل میں دس ہزار سے زیادہ پاکستانی نوجوان تعمیرات، آئی ٹی، ٹرانسپورٹ، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں سرگرم عمل ہیں۔
افغانستان میں کام کرنے والے اپنے شہریوں کے بارے میں پاکستان کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں۔ افغانستان میں بھی پاکستانی کارکنوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ افغان وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ اہلکار غفور لیوال کا کہنا ہے، ’’اگرچہ غیر ملکی این جی اوز کی تعداد میں کمی کے بعد پاکستانیوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے، لیکن اب بھی ان کی ایک بڑی تعداد مختلف کمپنیوں اور نجی اداروں میں کام کررہی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں کا تعلق زیادہ تر خیبر پختونخوا، پنجاب اور قبائلی علاقوں سے ہے۔ صرف کابل میں اس وقت دس ہزار سے زیادہ لوگ کام کررہے ہیں جو کمپیوٹر ٹیکنالوجی، صحت، تعمیرات، تجارت اور دیگر شعبوں میں مصروف ہیں۔
افغانستان کے دیگر صوبوں میں ایسے پاکستانی کارکنوں کی اکثریت تعمیراتی شعبے میں کام کرتی ہے۔ جس وقت غیر ملکی اداروں کے لوگ یہاں تھے، تو پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ لیکن ان کی تعداد میں کمی آنے کے بعد پاکستانیوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔ لیکن ایک بڑی تعداد اب بھی موجود ہے اور ان لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔‘‘
افغانستان میں آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں غیر ملکی امدادی ادارے تعمیرنو کے کاموں میں مصروف ہیں۔ اس وقت کئی بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ تاہم افغانستان میں جہاں ہنرمندوں کی کمی ہے وہاں عام مزدوروں کی بھی قلت ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی افغانستان میں کام کررہے ہیں۔ اگرچہ کئی افغان اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستانی لیبر کی وجہ سے ان کی اُجرتوں میں کمی ہوئی ہے تاہم پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں صنعتوں کی بندش اوردہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کے ملک سے نکل جانے سے وہاں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کارکن افغانستان میں کم اُجرت پر بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر ضیاءالحق سرحدی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بیشتر علاقوں میں امن و امان کی صورتحال پاکستان سے بہتر ہے اور کابل میں تو حالات انتہائی پُرسکون ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں زیادہ تر کارخانے بند ہیں اور وہاں کام کرنے والے ماہر کارکنوں کا تعلق پنجاب اور سندھ سے تھا۔ یہ لوگ عرب ممالک جانے کی بجائے افغانستان چلے گئے، جہاں وہ نہ صرف خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں بلکہ انہیں مڈل ایسٹ کے مقابلے میں زیادہ معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے امدادی ادارے افغانستان میں تعمیر نو کے کاموں میں مصروف ہیں اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ''کابل کے ساتھ ہی ایک نیا شہر آباد ہو رہا ہے، جہاں ایسے ہنرمندوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ عرصے بعد افغانستان میں پاکستانی ماہر کاریگروں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
خیبر پختونخوا کے ہوم اینڈ ٹرائبل ڈیپارٹمنٹ کو ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق جون کے آخری تین دنوں میں طورخم کی پاک افغان سرحد کے راستے 19657 افراد پاکستان میں داخل ہوئے، جن میں سے 18745 کے پاس کوئی سفری دستاویزات نہیں تھیں۔ اسی طرح انہی تین دنوں کے دوران پاکستان سے افغانستان جانے والے 21692 افراد میں سے 20 ہزار سے زائد ضروری قانونی دستاویزات کے بغیر افغانستان میں داخل ہوئے۔