افغانستان میں سیاسی تعطل، انتخابی دھاندلی کے الزامات پھر منظر عام پر
26 اگست 2011گزشتہ سال ستمبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دھاندلیوں کی بڑے پیمانے پر شکایات موصول ہونے کے بعد ملک کے آزاد الیکشن کمیشن نے رواں ہفتے اپنے حتمی فیصلے میں وولیسی جرگہ یا ایوان زیریں کے نو اراکین کو فارغ کرنے کا حکم دیا۔
جون میں صدر حامد کرزئی کے مقرر کردہ ایک خصوصی ٹریبیونل نے 62 اراکین پارلیمان کو فارغ کرنے کی تجویز دی تھی جسے پارلیمان نے رد کر دیا۔ موجودہ صورتحال سے افغان سیاست میں شفافیت کے سوالات ایسے وقت میں پھر تازہ ہو گئے ہیں جب2014 ء کی حتمی تاریخ سے قبل ملک میں موجود غیر ملکی فورسز کا انخلاء شروع ہو چکا ہے۔
اگرچہ پارلیمان کے اجلاس ہوتے رہے ہیں مگر اس کی قانونی حیثیت خطرے میں پڑ گئی ہے اور بہت سے اہم فیصلوں کو منظور کرانا قریب قریب ناممکن ہو گیا ہے، جن میں کابینہ کے سات اراکین کی توثیق بھی شامل ہے۔
برطرف ہونے والے نو اراکین میں ملک کے شمالی صوبہ سمنگان سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی طاہر زہیر بھی شامل ہیں، جنہوں نے انتخابی کمیشن کے فیصلے پر اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا، ’’آزاد انتخابی کمیشن نے یہ فیصلہ دباؤ میں اور حکومت کے ساتھ خفیہ معاہدوں کے نتیجے میں کیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کو نہیں مانتے کیونکہ پھر ملک ایک سنگین بحران کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
گزشتہ منگل کو دارالحکومت کابل میں 700 مظاہرین نے انتخابی کمیشن کے فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن پر الزام لگایا کہ کمیشن سے یہ فیصلہ کرانے کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے۔ مظاہرین نے آئندہ ہفتوں میں احتجاج جاری رکھنے اور سڑکیں بند کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ UNAMA نے مداخلت کے الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اگلے روز وولیسی جرگہ نے آزاد انتخابی کمیشن کے فیصلے کو مسترد کر دیا، تاہم لگتا ہے کہ کمیشن مخالفت کے باوجود اپنے فیصلے پر قائم رہے گا۔
صدر حامد کرزئی اور UNAMA دونوں نے ہی کمیشن کے نتائج کی توثیق کر دی ہے اور مبینہ طور پر پارلیمان کے ناراض اراکین کو اس پر آمادہ کرانے کے لیے پس پردہ جوڑ توڑ کی سیاست چل رہی ہے۔ رواں ہفتے صدر کرزئی نے اس تعطل کے خاتمے کی کوئی راہ نکالنے کے لیے بااثر سیاستدانوں اور علماء سے ملاقات کی اور مخالفت ختم کرنے کے لیے معزول ہونے والے نو اراکین کو سرکاری عہدوں کی پیشکش کی۔
ذرائع کے مطابق اگرچہ کمیشن کے فیصلے سے حامد کرزئی کے بعض اتحادی بھی متاثر ہوں گے، مگر صدر رواں سال دسمبر میں جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق ہونے والی کانفرنس سے قبل اس مسئلے کا جلد از جلد حل نکالنے کے خواہاں ہیں۔
تاہم بعض مبصرین نے اس طرح کے حساس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے آزاد انتخابی کمیشن کے استعمال کی دانش پر اعتراض کیا ہے۔ کابل میں قائم ایک تحقیقی مرکز ’اینالسٹس نیٹ ورک‘ میں کام کرنے والے تھامس رٹنگ نے کہا، ’’مجھے خدشہ ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے قانون پر سمجھوتہ ہو گا اور بہت سے لوگ غیر مطمئن رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ کچھ عرصے بعد مظاہرے ختم ہو سکتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ صورتحال کو تسلی بخش انداز میں حل کر لیا گیا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک