افغانستان میں شہری ہلاکتوں میں اضافہ
10 اگست 2010افغانستان میں شہری ہلاکتیں ہمیشہ ہی سے ایک مسئلہ رہی ہیں۔ جہاں ان کی زیادہ تر ذمہ داری عسکریت پسندوں پر عائد ہوتی ہے وہیں نیٹو اور اس کے اتحادی بھی اس حوالے سے قصور وار ہیں۔ نیٹو نے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے مختلف منصوبے بھی متعارف کرائے لیکن مجموعی طور پرشہری ہلاکتوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا گیا۔ اس کی مثال ایک تازہ رپورٹ ہے، جس میں بتایا گیا ہےکہ افغانستان میں رواں سال کی پہلی ششماہی کے دوران گزشتہ برس کے پہلے چھ ماہ کے مقابلے میں اکتیس فیصد زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2010ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران مختلف واقعات میں1271شہری ہلاک اور تقریباً دو ہزار زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں 176بچے بھی شامل ہیں۔ زیادہ تر ہلاکتیں عسکریت پسندوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجے میں ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے سٹافان دے مِستورا نے بتایا کہ وہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ فکر مند ہیں کیونکہ شہریوں کو اس بحران کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ رپورٹ اس سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چھ ماہ کے دوران زیادہ تر افراد بم دھماکوں میں ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ان میں سے72 فیصد عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنے جبکہ گزشتہ برس یہ شرح 58 فیصد رہی تھی۔ سٹافان دے مِستورا نے مزید کہا کہ افغانستان کا مستقبل شہریوں کی لاشوں پر سے گزر کر نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسند وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ہی منظم انداز سے دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس امر کی ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں 95 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اتحادی افواج کی کارروائیوں کے دوران شہری جانوں کا ضیاع کابل حکام اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مابین اکثر تنازعے کی صورت اختیار کرتا رہا ہے۔ زیادہ تر بے گناہ شہری فضا سے کی جانے والی بمباری میں ہی ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے نیٹو اور امریکی افواج کے سابقہ کمانڈراسٹینلے میک کرسٹل نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے فضائی حملوں میں کمی کا اعلان کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس حکمت عملی کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور نیٹوکی کارروائیوں میں223 شہری ہلاک ہوئے۔ یہ شرح گزشتہ برس کے مقابلے میں تیرہ فیصد کم ہے۔ افغان امور کے ایک ماہر ہارون میر نے کہا ہے کہ بےشک طالبان نے زیادہ تر شہریوں کو ہلاک کیا ہے لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کون ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عام افغان باشندے نا امیدی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک