افغانستان میں صدارتی انتخابات، کرزئی کا اصل مقابل کون؟
11 اگست 2009افغانستان میں بیس اگست کو صدارتی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات میں، صدر کرزئی سمیت چالیس امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ صدر حامد کرزئی کی حکومت میں شامل تو رہے مگر انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ کابینہ میں ان کی شمولیت کو قبول کرنے کا فیصلہ ملک کے مفاد میں کیا تھا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ کرزئی حکومت نے ملک میں خوشحالی کو یقینی نہیں بنایا اور اسی لئے افغانستان میں غریب اور امیر کے درمیان موجود فرق میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس حوالے ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا :’’غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل کی وجہ دراصل غیر موثر حکومتی نظام ہے۔ ایسی حکومت جو کہ عوام کے مطالبات اور خواہشات کو نظر انداز کر دیتی ہے۔‘‘
افغانستان میں17 ملین ووٹر رجسٹرڈ ہیں۔ ان کی سہولت کے لئے 34 صوبوں میں 28 ہزار پانچ سو پولنگ سٹیشن قائم کئے جائیں گے۔ عبداللہ عبداللہ کا الیکشن مہم کے دوران موقف ہے کہ کرزئی حکومت نے لوگوں کےلئے کچھ نہیں کیا اوراسی لئے پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔
عبداللہ کا مزید کہنا کہ پچھلے دور حکومت نے ملک کے مرکزی نظام کو بھی کمزور بنا دیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ صوبوں کی خود مختاری کی حمایت کرتے ہیں۔
’’ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ افغان عوام کی یہی خواہش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نےاپنے منشور میں صداراتی کے بجائے پارلیمانی نظام حکومت کی حمایت کی ہے۔ ہم اس بات کو اہم سمجھتے ہیں کہ گورنر، ڈسٹرکٹ کے نگران اور میئرز کا انتخاب بھی عوام کرے۔‘‘
افغانستان میں انتخابات سے قبل پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں برطانوی فوج نے گزشتہ ماہ امن و امان کی صورتحال قائم کرنے کے لئے ہلمند میں پینتھر کلاز نامی فوجی آپریشن کیا تھا۔ برطانوی فوج کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس آپریشن کی بدولت ہلمند کے 80 ہزار ووٹر الیکشن میں ووٹ ڈال سکیں گے۔
دریں اثناء افغانستان میں شفاف الیکشن کے انعقاد کے لئے یورپی یونین نے 100مبصرین کو بھیجنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ افغانستان میں امن کے قیام کے لئے امریکہ اور اس کے41 اتحادی ملکوں کےایک لاکھ ایک ہزار فوجی عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔
رپورٹ : میرا جمال
ادارت : عدنان اسحاق