1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں مسیحی اقلیت خوف کا شکار

31 جنوری 2011

افغانستان میں مسیحی عقیدے کے ہزاروں شہری ملک میں طالبان دور حکومت کے خاتمے کے دس سال بعد اکثریتی مسلمان آبادی والی اس ریاست میں اپنے لیے ابھی تک عملی طور پر مذہبی آزادی کے انتظار میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/107wk
سن 2006 میں عبدالرحمان نامی افغان باشندے کا مسیحیت قبول کرنا مسلسل شہ سرخیوں کا موضوع رہا تھاتصویر: AP

انہی افغان مسیحی باشندوں میں سے ایک بائیس سالہ عنایت بھی ہے، جسے اپنے ہم عقیدہ افراد کو درپیش صورت حال کے حوالے سے اس قدر خوف کا سامنا ہے کہ اس کی رائے میں اسے یا کسی بھی دوسرے افغان مسیحی شہری کو کسی بھی وقت جیل جانا پڑ سکتا ہے۔

عنایت پیدائشی طور پر مسلمان تھا لیکن بعد میں اس نے مسیحی عقیدہ قبول کر لیا۔ اب وہ کسی کو اپنا اصلی نام بھی نہیں بتاتا۔ عنایت نے ملکی دارالحکومت کابل کے جنوب میں اپنے ایک قابل اعتماد دوست کے گھر پر فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پہلے میں ہر وقت بائبل اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اب میں ایسا نہیں کرتا۔ میں خود کو مسیحی کہلوانا بھی نہیں چاہتا، کیونکہ پھر لوگ یہ سوچیں گے کہ میں نے کوئی بد اخلاقی کی ہے۔‘‘

Afghanistan IAM bestätigt Tod von Mitarbeitern Dirk Frans in Kabul
گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں انٹرنیشنل اسسٹنس مشن کے آٹھ ارکان کو قتل کر دیا گیا تھاتصویر: AP

افغانستان میں، جہاں طالبان باغی غیر ملکی فوجی دستوں کے خلاف اپنی وہ مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جسے وہ ’مقدس جنگ‘ قرار دیتے ہیں، پورے ملک میں کوئی کلیسا نہیں ہے، مسیحیت کی تبلیغ قانونی طور پر منع ہے اور ملکی آئین کے تحت مسلمانوں کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اسلام چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کریں۔

افغانستان میں اگر کوئی مسلمان اپنا عقیدہ چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیتا ہے تو قانونی طور پر یہ ایک جرم ہے، جس کی سزا موت ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں افغانستان میں ایسی کسی سزا پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ عنایت کے بقول اگر وہ کبھی گرفتار ہو گیا، تو وہ کبھی بھی یہ نہیں کہے گا کہ وہ کوئی مسیحی ہے۔ ’’اگر آپ اس کا اعتراف کر لیں تو آپ اس ملک میں رہ نہیں سکتے۔‘‘

افغانستان میں گزشتہ چند برسوں میں یہ بھی دیکھنے میں آ چکا ہے کہ چند مسیحی مبلغین یا ایسے غیر ملکیوں کو، جن پر شبہ تھا کہ وہ دوسروں کو تبدیلی مذہب کے بعد مسیحیت کی طرف لانے کے لیے ملک میں موجود تھے، قتل بھی کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ برس اگست میں آٹھ ایسے غیر ملکیوں کو، جو طبی شعبے میں کام کرتے تھے لیکن جن کے خلاف طالبان کی طرف سے الزام یہ تھا کہ وہ مسیحی مبلغین تھے، شمالی افغانستان میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کرسچین امدادی تنظیم کا، جس کے لیے یہ غیر ملکی کام کرتے تھے، کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں پچھلے 45 برسوں سے کام کر رہی ہے اور اس نے کبھی بھی اس ملک میں تبلیغ کا کام نہیں کیا۔

Afghanistan Taliban
طالبان کا دعویٰ ہے کہ غیر ملکی امدادی کارکن امداد کی آڑ میں مسیحیت کی تبلیغ بھی کر رہے ہوتے ہیںتصویر: AP

مغربی ملکوں کے بڑے بڑے مذہبی گروپوں کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں مسیحی عقیدے کے افراد کی کل تعداد کئی ہزار بنتی ہے لیکن ان افراد کو ایک خاص طرح کے خوف کے احساس کا سامنا بھی ہے۔ گزشتہ برس مئی میں افغانستان کی اس چھوٹی سی مذہبی اقلیت پر دباؤ میں اس وقت بہت اضافہ ہو گیا تھا، جب ایک مقامی ٹیلی وژن نے ایک ایسی ویڈیو دکھائی، جس میں مردوں کو بپتسمہ دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور فارسی میں دعائیں مانگی جا رہی تھیں۔ یہ ویڈیو بظاہر کابل میں ایک گھر میں ہونے والی ایک مذہبی تقریب کی ویڈیو تھی، جس کے نشر ہونے کے بعد افغانستان میں مشتعل مظاہرین کا احتجاج شروع ہو گیا تھا۔

اس واقعے کے بعد افغانستان کے دو مسلمان باشندوں کو مسیحیت قبول کرنے کے شبے میں گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔ وہ دونوں ابھی تک ملکی دارالحکومت کابل کی ایک جیل میں بند ہیں اور ان کے خلاف مقدمے کی عدالتی سماعت ابھی تک التوا کا شکار ہے۔

بائیس سالہ عنایت کا کہنا ہے کہ وہ کسی سے اپنے مذہب کے بارے میں تو بات نہیں کرتا لیکن افغانستان میں مذہب کی تبدیلی کے سلسلے میں نظر آنے والے حالیہ واقعات کے باوجود وہ یہ تہیہ کیے ہوئے ہے کہ وہ حالات سے تنگ آ کر بیرون ملک بھی نہیں جائے گا۔

عنایت کے مطابق، ’’جب میں ملک سے باہر تھا تو میں افغانستان کے لیے رویا کرتا تھا۔ افغانستان کو میرے جیسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ ملک ترقی کرے۔ اگر میں برطانیہ یا امریکہ جانے کا خواہشمند ہوتا، تو ظاہر ہے کہ میری یہ سوچ صرف میرے اپنے لیے ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔‘‘

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں