افغانستان میں پُر تشدد واقعات، 25 سے زیادہ ہلاک
18 اگست 2011صوبے ہرات کی حکومت کے ایک ترجمان محی الدین نوری نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ ان میں سے ایک دھماکے کے نتیجے میں ہرات کے ضلع اوبی میں سفر کرنے والی ایک منی وَین کے تمام 22 مسافر ہلاک ہو گئے۔ ترجمان کے مطابق مرنے والوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
اُنہی لمحات میں ایک دوسرا بم ضلع اوبی ہی میں کوتل ترکستان کے مقام پر پھٹا، جس کے نتیجے میں 9 افراد زخمی ہو گئے۔ صوبائی حکومت کے ترجمان نوری نے بتایا کہ ان زخمیوں میں سے ایک خاتون بعد ازاں ہسپتال میں اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔
طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے کہا ہے کہ ان دھماکوں کے پیچھے عسکریت پسندوں کا ہاتھ نہیں تھا۔ ماضی میں طالبان بین الاقوامی دستوں کو نشانہ بنانے کے لیے زیادہ تر سڑک کے کنارے نصب بموں کا سہارا لیتے رہے ہیں، جن کے پھٹنے سے زیادہ تر عام شہری ہی مارے جاتے رہے ہیں۔ گزشتہ مہینے اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے چھ مہینوں میں مارے جانے والے عام شہریوں کی تعداد 1460 سے زیادہ تھی۔ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں یہ تعداد پندرہ فیصد زیادہ ہے۔
اسی دوران مشرقی افغانستان کے پاکستان کی سرحد سے ملحقہ صوبے پکتیا کے شہر گردیز میں امریکی فوج کے زیر نگرانی چلنے والے ایک اڈے پر ایک خود کُش کار بم حملہ کیا گیا ہے۔ اِس واقعے میں دو افغان گارڈز ہلاک ہو گئے۔ اتحادی دستوں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ حملہ آور اپنی بارود سے لدی گاڑی سمیت اڈے کے اندر داخل ہونا چاہتا تھا لیکن افغان محافظوں نے اُسے ایسا نہیں کرنے دیا، جس کے بعد اُس نے گیٹ پر ہی خود کو اپنی گاڑی سمیت دھماکے سے اڑا دیا۔
طالبان نے گردیز فوجی اڈے پر کیے جانے والے اس خود کُش کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک نامعلوم مقام سے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس حملے میں درجنوں امریکی اور افغان فوجی ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ عام تاثر یہ ہے کہ طالبان اس طرح کے اعداد و شمار میں اکثر مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک