افغانستان میں پچھلی غلطیاں نہیں دہرائیں گے، امریکی وزیر دفاع
15 جون 2017واشنگٹن سے جمعرات پندرہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بدھ کی شام اس عزم کا اظہار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ اب افغانستان میں ان غلطیوں کو نہیں دہرائے گی، جو گزشتہ امریکی صدور کے ادوار میں ہندو کش کی اس ریاست میں واشنگٹن کی پالیسیوں میں کی جاتی رہی ہیں۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اپنے پیش رو صدر باراک اوباما کے مقابلے میں، جن کے دور اقتدار میں افغانستان میں امریکی فوجی دستوں کی ہر تعیناتی یا انخلاء کا وائٹ ہاؤس کی طرف سے بغور اور بہت تنقیدی جائزہ لیا جاتا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سلسلے میں فیصلہ سازی ملکی محکمہ دفاع یا پینٹاگون کے ان اعلیٰ ترین رہنماؤں کے سپرد کر دی ہے، جن میں وزیر دفاع کے علاوہ وہ فوجی کمانڈر بھی شامل ہیں، جنہیں ٹرمپ بڑے شوق سے ’میرے جنرل‘ کہتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ جب سے صدر بنے ہیں، انہوں نے افغانستان سے متعلق اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں بہت ہی کم بات کی ہے۔ لیکن پھر اسی ہفتے ٹرمپ نے یہ اختیار وزیر دفاع جیمز میٹس کو دے دیا تھا کہ وہ افغانستان میں کسی بھی تعداد میں امریکی فوجی دستوں کی تعیناتی سے متعلق ہر وہ حتمی خود فیصلہ کر سکتے ہیں، جو وہ مناسب سمجھتے ہوں۔
’افغانستان اور پاکستان اختلافات افہام و تفہیم سے حل کریں‘
امریکا اور نیٹو اپنے مزید فوجی افغانستان بھیجیں گے یا نہیں؟
افغانستان کے حالات ابھی اور خراب ہوں گے، امریکی انٹیلیجنس چیف
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پینٹاگون کی طرف سے مبینہ طور پر اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں مزید تین ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک نیٹو کے فوجی تعینات کیے جانا چاہییں، جن میں سے ایک خاص تعداد میں فوجی نیٹو کے رکن دیگر ممالک بھی مہیا کریں گے۔
اس کے برعکس کئی تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں کسی بھی طرح کی فوجی فتح کے لیے متعدد امریکی صدور کی طرف سے بار بار کی جانے والی گزشتہ کوششوں کے نتائج کو دیکھا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہندو کش کی اس ریاست میں کسی طویل المدتی عسکری کامیابی کے لیے میٹس جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، اس کے سچ ثابت ہو جانے کا امکان زیادہ نہیں ہے۔
جہاں تک افغانستان کی موجودہ صورت حال کا سوال ہے تو اس وقت وہاں امریکا کے اپنے قریب 8,400 اور نیٹو کے قریب 5,000 فوجی موجود ہیں۔ اگر مزید فوجی بھیجے گئے تو ان مغربی عسکری مشیروں کی تعداد زیادہ ہو جائے گی، جو افغان دستوں کی مشاورت اور تربیت کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں یہ بات بھی اپنی جگہ باعث تشویش ہے کہ 2001ء میں افغانستان میں امریکا کی قیادت میں ایک عسکری اتحاد کی اس دور کی طالبان انتظامیہ کے خلاف فوجی مداخلت کے 16 برس بعد بھی اس ملک میں جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور یہ جنگ امریکا کی تاریخ کی بیرون ملک لڑی جانے والی طویل ترین جنگ بھی بن چکی ہے۔